Inquilab Logo Happiest Places to Work

مغرب سے کشیدگی کے درمیان شی جن پنگ اور پوتن کی گفتگو

Updated: December 16, 2021, 8:30 AM IST | Beijing

چینی اور روسی سربراہوں نے ورچوئل میٹنگ کے دوران امریکہ اور مغرب کی معاشی پابندیوں کا مقابلہ کرنے اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے علاوہ مختلف امور پر بات کی۔ دونوں ممالک کے تعلقات کو بین الاقوامی تعاون کی مثال قرار دیا۔ جلد ہی دونوں لیڈران کی روبرو ملاقات بھی متوقع

Russian President Vladimir Putin is seen in his office, while Chinese President Xi Jinping is seen on a video screen
روسی صدر ولادیمیر پوتن اپنے دفتر میں جبکہ چینی صدر شی جن پنگ ویڈیو اسکرین پرنظر آ رہے ہیں

 ایک طرف امریکہ سمیت مغرب کے بیشتر ممالک یوکرین کے معاملے پر روس کے خلاف کھڑے ہیں تو دوسری طرف چین اور امریکہ کی چپقلش میں بھی ان کا جھکائو امریکہ کی طرف یعنی چین کے خلاف ہے۔ ایسی صورت میں چین اور روس جو کہ پہلے ہی ایک دوسرے کے دوست کہلاتے ہیں ، باہمی طور پر مزید قریب آ گئے ہیں۔ بدھ کو چینی صدر شی جن پنگ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کے درمیان ایک ورچوئل ملاقات ہوئی جس میں مغرب کے ساتھ جاری کشیدگی کے تعلق سے ہی گفتگو ہوئی۔
  میٹنگ کی شروعات میں دونوں لیڈران نے ایک دوسرے کی تعریف کی ۔ نیز روس اور چین کے تعلقات کو بین الاقوامی تعاون کی مثال قرار دیا۔  ولادیمیر پوتن نے کہا ’’ دونوں ممالک کے درمیان  باہمی تعاون کا ایک نیا ماڈل ظہور  میں آیا ہے جو کہ ایک دوسرے کے احترام، ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ اور ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی قدروں پر مبنی ہے۔  دونوں ممالک ایک دوسرے کی سرحد پر قبضہ جمانے کے بجائے ، ایک پڑوسی کی طرح سلوک کرتے ہیں۔‘‘ 
  ادھر شی جی جن پنگ نے کہا ’’  ولادیمیر پوتن پوری مضبوطی سے چین کے  قومی مفادات کیلئے کئے گئے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں اور ہمارے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوششوںکی کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔‘‘  انہوں نےکہا ’’ میں اس کیلئے ان کی بھر پور ستائش کرتا ہوں۔‘‘ 
 ولادیمیر پوتن نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ  آئندہ فروری میں شی جن پنگ سے ملاقات کریں گے اور ۲۰۲۲ء کے بیجنگ اولمپکس میں شرکت بھی کریں گے۔ یاد رہے کہ امریکہ اور اس کی ایما پر آسٹریلیا، کینیڈا اور برطانیہ بیجنگ اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ یعنی اس میں ان ممالک کے کھلاڑی تو حصہ لیں گے لیکن سرکاری حکام شامل نہیں ہوں گے۔  
  واضح رہے کہ ایک روز قبل ہی جی ۷؍ ممالک نے روس کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اس کے خلاف معاشی پابندیاں عائد کی جائیں گی، ساتھ ہی حملے کی صورت میں یوکرین کی فوجی مدد کی جائے گی۔ اس سے کچھ دن قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے ولادیمیر پوتن سے  ورچوئل ملاقات کی تھی۔ انہوں نے بھی پوتن کو متنبہ کیا تھا کہ اگر یوکرین پر حملہ کیا گیا تو روس کے خلاف سفارتی سطح پر کارروائی کی جائے گی۔ کہا جا رہا ہے کہ ولادیمیر پوتن سے شی جن پنگ کی گفتگو دراصل مغرب کو  یہ پیغام دینے کی کوشش تھی کہ کسی بھی مشکل کی گھڑی میں چین روس کا ساتھ دے گا۔  بلکہ اسے مغرب کا متحدہ طور پر مقابلہ کرنے کی تیاری کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔  اس کا اشارہ روسی صدارتی محل کریملن نے پہلے دیدیا تھا۔ روسی حکومت کے ترجمان دیمتری  پیسکوف نے دونوں لیڈروں کی میٹنگ سے قبل کہا تھا’’  عالمی سطح پر خاص کر یورپی ممالک میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور یہی وقت ہے کہ اتحادیوں کو اس تعلق سے گفتگو کرنی چاہئے۔‘‘   انہوں نے کہا کہ ’’ ہم دیکھ رہے ہیں کہ نیٹو اور امریکہ کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے ،  اور اس وقت ہمارے اور چین کے درمیان حالات پر گفتگو ناگزیر ہے۔‘‘   دیمتر پیسکوف نے یہ بھی کہا کہ ’’ دونوں لیڈروں کے درمیان توانائی، کاروبار اور سرمایہ کاری کے تعلق سے گفتگو ہوگی ۔  میٹنگ کے بعد چینی وزارت خارجہ کی ترجمان وانگ  وین بن نے کہا ’’ یہ میٹنگ دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے اعتماد کا اعادہ کرنے کیلئے تھی۔‘‘ 
   بیجنگ سے رپورٹنگ کرنے والے کئی صحافیوں نے اسی طرح کے اشارے دیئے ہیں کہ مغرب کا مقابلہ کرنے کیلئے کسی متحدہ حکمت عملی کی تشکیل کیلئے ہی یہ میٹنگ منعقد کی گئی تھی۔  یاد رہے کہ گزشتہ سال بھر کے عرصے میں امریکہ نے نہ صرف چین پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کی ہے بلکہ وہ مسلسل روس کے خلاف بھی کسی نہ کسی طرح کی سفارتی کارروائی کر رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ چین اور روس پڑوسی ممالک ہیں اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ خطے کے بیشتر ممالک اس وقت امریکہ کے نشانے پر ہیں اور چین کے قریب ہیں۔ روس کے علاوہ ایران بھی امریکی پابندیوں کا نشانہ ہے، اس کے علاوہ پاکستان اور افغانستان بھی اس گروپ میں شامل ہو گئے ہیں۔ ایسی صورت میں یورپ بنام ایشیا یہ دو گروہ  ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہو سکتے ہیں۔  اس میں ایک دوسرے کی فوجی مدد سے لے کر معاشی تعاون تک کا معاملہ شامل ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK