Inquilab Logo Happiest Places to Work

بائیڈن اور پوتن میں کشیدگی ، روس نے اپنا سفیر واپس بلالیا

Updated: March 19, 2021, 11:40 AM IST | Agency | Washington

امریکی صدر نے ایک روز قبل انٹرویو میں کہا تھا ’’ پوتن کو امریکی انتخابات میں مداخلت کی قیمت چکانی پڑے گی‘‘ روس نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا۔ البتہ سفیر کو وقتی طور پر واپس بلایا گیا ہے ، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کوبہتر بنانے کی راہ نکالنے کے بعد دوبارہ بحالی کا عندیہ بھی ظاہر کیا گیا

Putin and Biden - Pic : INN
پوتن اور بائیڈن ۔ تصویر : آئی این این

روس  اور امریکہ کے درمیان کشیدگی انتہا پر پہنچ گئی ہے۔ ایک روز قبل  جوبائیڈن کی جانب سے دی گئی دھمکی کے بعد ماسکو نے امریکہ میں تعینات اپنے سفیر کو واپس بلالیا ہے۔ یاد رہے کہ کسی ملک سے اپنے سفیر کو واپس بلالینے کا  مطلب ہوتا ہے کہ اس ملک سے سفارتی تعلقات منقطع کر لینا۔ حالانکہ روس نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔روسی وزارتِ خارجہ نے بدھ کو واشنگٹن میں تعینات سفیر اناطولی انتونوو کی عارضی واپسی سے متعلق واضح کیا کہ سفیر کی واپسی کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے راستوں کی نشاندہی کرنا ہے جو اس وقت مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔
 روسی وزارتِ خارجہ کے بقول امریکہ روس کے ساتھ تعلقات کو ایک بند گلی میں لے گیا ہے جبکہ ماسکو کی کوشش ہے کہ تعلقات کو دوبارہ استوار کیا جائے۔روسی سفیر کی وطن واپسی کا اعلان امریکی  صدر جوبائیڈن کے `اے بی سی ٹیلی ویژن پر بدھ کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو کے بعد سامنے آیا ہے۔اس انٹرویو میں بائیڈن نے کہا تھا کہ روسی صدر ولادی میر پوتن کو اپنے بدخواہانہ اقدامات کی `قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ یاد رہے کہ حال ہی میں  پیش کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں روس اور ایران نے مداخلت کی تھی۔ روس ڈونالڈ ٹرمپ کی فتح کیلئے کام کر رہا تھا۔ جو بائیڈن انٹرویو میں اسی تعلق سے پوچھے گئے سوال کا جواب دے رہے  تھے۔جوبائیڈن کے بقول انہوں نے اپنے روسی ہم منصب سے کہا تھا کہ’’ `میرے خیال سے آپ میں احساس نہیں ہے‘‘ جس پر ان کے بقول روسی صدر نے جواب دیا تھا کہ’’ `ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔‘‘ لیکن انٹرویو کے دوران اس سے بڑی بات یہ ہوئی کہ جب  بائیڈن سے پوچھا گیا کہ آیا وہ سمجھتے ہیں کہ پوتن ایک قاتل ہیں  تو انہوں   نے جواب دیا کہ `میں ایسا ہی سمجھتا ہوں۔
  اس سلسلے میںامریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن سے منسلک  ایک سینئر فیلو ولیم کورٹنی کے مطابق یہ بہت کم ہوتا ہے کہ ایک امریکی صدر کسی حریف ملک کے سربراہ کو قاتل سے تشبیہ دیں۔ سوویت یونین کے ساتھ امریکی دفاعی بات چیت میں مذاکرات کار رہنے والے کورٹنی نے  بتایا کہ کبھی کبھار تضحیک کے بعد سفرا کو واپس بلا لیا جاتا ہے۔
 بدھ کو ایک پریس بریفنگ کے دوران وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے صدر بائیڈن کی جانب سے پوتن کو قاتل قرار دینے کی وضاحت سے گریز کیا  تھاکہ آیا صدر واقعتاً یا استعارتاً روس کے صدر کو ایک قاتل سمجھتے ہیں۔اس دوران جب پریس سیکریٹری سے ماسکو کی جانب سے اپنے سفیر کو واپس بلانے سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ سابقہ   (ٹرمپ )انتظامیہ کے مقابلے میں روس کے ساتھ تعلقات میں ایک مختلف نقطۂ نظر اپنائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جن معاملات پر ہمیں خدشات  ہیں  اس پر ہم  براہِ راست بات کر رہے ہیں۔
 علاوہ ازیں محکمۂ خارجہ کی نائب ترجمان جالینا پورٹر نے صحافیوں کو بتایا کہ ہم امریکی مفاد کیلئے روس کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ تاہم روس کی کسی بھی جارح کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔واضح رہے کہ بائیڈن نے نئے جوہری  ہتھیاروں اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے جیسے باہمی تعاون کے شعبوں میں ماسکو کے ساتھ کام کرنے میں دلچسپی کا ظاہر کی  ہے ۔
 اس سے قبل بائیڈن نے انٹیلی جنس کے پتہ  لگائے گئے ایک ڈی کلاسیفائیڈ ورژن کو جاری کرنے کا حکم دیا تھا نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے دفتر سے جاری کردہ مذکورہ رپورٹ کے مطابق روس اور ایران امریکی صدارتی انتخابات میں عوام کے اعتماد کو کمزور کرنے کی وسیع کوششوں میں مصروف تھے۔اس بارے میں روسی صدر کے ترجمان دمتری پیسکوو نے بدھ کو کہا کہ امریکی انٹیلی جنس رپورٹ `غلط تھی اور اس کی کوئی بنیاد اور ثبوت نہیں ہے۔یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی چار سالہ مدت کے دوران روسی صدر کے امریکہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات تھے اور ٹرمپ اکثر پوتن کی برملا تعریف کیا کرتے تھے۔ٹرمپ نے ۲۰۱۶ءکے صدارتی انتخابات میں روس کی جانب سے مداخلت سے متعلق امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کے اخذ کردہ نتائج کو بھی مسترد کر دیا تھا۔امریکی سرمایہ کار ڈونالڈ ٹرمپ نے ۲۰۱۶ء کے صدارتی انتخاب میں تجربہ کار سیاست داں اور سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن کو شکست دی تھی۔ حالیہ جاری کردہ رپورٹ بھی ڈونالڈ ٹرمپ کے اقتدار میں رہتے ہوئے یعنی ۲۰؍ جنوری سے قبل جاری ہو گئی تھی لیکن ٹرمپ نے اسے پوشیدہ رکھا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK