Inquilab Logo Happiest Places to Work

جب پوتن کے خلاف بغاوت ہو سکتی ہے تو پھر سوچ لیجئے

Updated: February 02, 2021, 6:08 AM IST | Hasan Kamal | Mumbai

بہت قلیل عرصہ میں ساری دنیا میں یہ خبر پھیل گئی کہ پوتن روس کے دولتمند ترین شہری بن چکے ہیں ۔یہ افواہ نہیں تھی سچی خبر تھی۔

Putin Photo: PTI
پوتن۔ تصویر: پی ٹی آئی

کاغذپر ہی سہی لیکن روس اب بھی دنیا کی دوسری سب سے بڑی طاقت ہے۔اگر طاقت کی بڑا ئی کا پیمانہ صرف ہتھیاروں کا بھنڈار ہوتا ہے تو یقیناً امریکہ کے بعد روس ہی کے پاس ہتھیاروں کا سب سے بڑا بھنڈار ہے۔اس کے پاس ایس ۴۰۰ ؍جیسا حربہ بھی ہے، جو میزائیل کو اس کی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی اسے فضا میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ 
   پوتن نے روس کے دوسرے ذریعہ آمدنی یعنی صنعت اسلحہ سازی کوبھی دوبارہ اپنے پیروں کھڑا کیا ۔ لیکن ان تمام کاموں کے ساتھ انہوں نے اپنی ذاتی آمدنی میں مسلسل اضافہ کرنے کے کام پر پوری پوری توجہ مرکوز رکھی۔ 
 بہت قلیل عرصہ میں ساری دنیا میں یہ خبر پھیل گئی کہ پوتن روس کے دولتمند ترین شہری بن چکے ہیں ۔یہ افواہ نہیں تھی سچی خبر تھی۔ اس بیچ انہوں نے اپنے ’’مرد آہن‘‘ ہونے کے بھی کئی ثبوت دیئے۔ انہوں نے چیچنیا کے مسلمانوں کی علاحدگی پسندتحریک کو اتنی بے رحمی اور سفاکی سے کچل کے رکھ دیا کہ ہندوستان میں بھی تمام آمریت پسند عناصر عش عش کر اٹھے۔ ہر چند کہ انہوں نے مخالفت کی ہر آواز کواٹھتے ہی دبا دینے کا وطیرہ اختیار کئے رکھا ،لیکن مخالفت کی آوازیں اٹھنا بند نہیں ہوئیں ۔ اس کے بر عکس ان میں نہایت خاموشی سے اضافہ ہی ہوتا رہا۔ پوتن کو اس خطرے کا احساس تھا۔ انہوں نے اسی دوران صدارتی انتخابات بھی کروالئے اور انہیں ایک نہیں دو بار چن بھی لیا۔ یہ اور بات ہے کہ دنیا کو آج تک ان انتخابات کی شفافیت پر یقین نہیں آسکا ہے۔ یہی نہیں ۔ انہوں نے روسی آئین میں ایسی ترامیم بھی کر لی ہیں ، جن کی رو سے وہ آئندہ کئی برسوں تک روس کے صدر رہ سکتے ہیں ان کا کھیل اس وقت بگڑنا شروع ہوا جب دنیا میں تیل کا بحران اٹھ کھڑا ہوا۔ لطف یہ ہے کہ اس بحران میں بھی ان ہی کا ہاتھ تھا۔ جب امریکہ نے تیل پرعربوں کی اجارہ داری ختم کرنے کیلئے اپنے تیل کے ذخائر بروئے کار لانے کافیصلہ کیا تو عرب تیل کی قیمت گرنے لگی۔ 
 اسی دوران کچھ ایسی باتیں رونما ہوئیں ، جن سے پوتن کی ذات کو بیحد متنازع بنا دیا۔ ۲۰۱۶ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں پوتن کے کردار پر کئی سوال اٹھے۔ ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے کئی بار یہ الزام لگایا کہ پوتن سائبر ذرائع کی مدد سے حقائق کے غلط اعدادو شمار پیش کرکے امریکی عوام میں غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں اور امریکی رائے عامہ کوہیلری کلنٹن سے بد ظن اور ٹرمپ کے لئے ہموار کرنے کی سازش کر رہے ہیں ۔ پوتن نے ان الزامات کی سختی سے تردید تو کی ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ نے اپنے دور اقتدار میں کئی بار روس کا ایسا دفاع کیا کہ سب کو حیرانی ہوئی۔ انہوں نے کئی بار روس کی اس طرح معاشی مدد کی جسے آسانی سے پکڑا نہیں جا سکا۔ روس اور امریکہ میں ایک برسوں پرانی عداوت تھی، لیکن ٹرمپ نے جس طرح پوتن کی مدد کی ، ویسی مدد کوئی صدر نے آج تک نہیں کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ پوتن نے بھی اسی لئے تیل پیدا کرنے والے ممالک سے تعاون سے انکار کیا تھا۔ ٹرمپ کے دورمیں کئی بار مختلف فورمس سے امریکی الیکشن میں روسی رول کی تفتیش کے مطالبے ہوتے رہے۔ اس سلسلہ میں کئی دستاویزی ثبوتوں کا بھی انکشاف ہوا، لیکن ٹرمپ نے اپنے خصوصی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر بار یہ مطالبے مسترد کر دیئے۔ لیکن انسان حالات سے تو لڑ سکتا ہے، قربت سے نہیں لڑ سکتا۔ کسی کو شک بھی نہ ہو سکا کہ جو پوتن باہر سے اتنے مضبوط اور طاقتور نظر آتے ہیں ، وہ اندر سے کتنے کھوکھلےہو چکے ہیں ۔ انہیں مبینہ طور پر رعشے کی ایک ایسی بیماری نے دبوچ رکھا تھا، جو لاعلاج ہے۔ اسی کے ساتھ انہیں کینسر کے موذی مرض میں گرفتار بتایا جا رہا ہے۔ ان خبروں کو دبانے کی بہت کوشش کی گئی، لیکن ان کاایک اقدام اس شبہ کو تقویت پہنچا رہا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں آئین میں ایک شق کا اضافہ کردیا ہے۔ اس شق کے مطابق کسی روسی صدر کے مر جانے کے بعد بھی اس کے کسی کام کی چھان بین نہیں کروائی جا سکتی۔ یہی نہیں اس کے اہل خانہ سے بھی کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کی جا سکتی۔ اس کا مطلب یہ لیا جا رہاہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ انہوں نے کچھ ایسے کام ضرور کئے ہیں ، جو ان کے اہل و عیال کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں ۔ 
جیسے ہی پوتن کے لا علاج مرض کی خبر پھیلی، ان کے خلاف عوام کا دبا ہوا غصہ پھر ابلنے لگا۔ یوں تو پوتن نے اپنے تمام مخالفین کو ٹھکا نے لگا دیا تھا، لیکن چند برس پہلے الیکسی نویلنی نام کا ایک نوجوان اچانک علم بغاوت لے کر منظر عام پرنظر آنے لگا تھا۔ پوتن نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ صرف یہ کیا کہ اسے گرفتار کر کے سائبیریا میں قید کر دیا۔مبینہ طور پر اسے وہاں دھیما زہر بھی دیا گیا۔ لیکن اس دورا ن عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو نویلنی کے بارے میں آگہی ہوگئی تھی۔ ان اداروں نے نویلنی کی رہائی کے لئے شور مچانا شروع کر دیا۔ نویلنی کی طبیعت بگڑنے کی خبر بھی عالمی سوشل میڈیا پر زورو شور سے گردش کرنے لگی۔شور اتنا زیادہ تھا کہ پوتن کو مجبور ہو کر نویلنی کو علاج معالجہ کے لئے جرمنی منتقل کرنا پڑا۔ صحتیاب ہونے پر نویلنی روس واپس آئے تو انہیں ہوائی اڈے پر ہی گرفتار کر کے ۳۰ ؍دن کے لئے قید کر یا گیا۔ لیکن اب معاملہ بہت بگڑ چکا تھا۔ اچانک روس کےتقریباً سو شہروں میں نویلنی کی رہائی کےمطالبے کے ساتھ مظاہرے پھوٹ پڑے۔دنیا ایک بار پھر حیران رہ گئی۔ مظاہروں کی تعداد لاکھوں کی تھی۔ ایک بار پھرو ہی نظروں کے سامنے تھا جو ۱۹۷۰ ءکے عشرے میں نظر آیا تھا۔ جب یلتسن کی قیادت میں عوام ٹینکوں کے سامنے سینہ سپر ہوگئے تھے۔ ابھی تک یہ نہیں معلوم ہو ا ہے کہ فوج اب بھی پوتن کے ساتھ ہے یا نہیں ۔ لیکن قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ پوتن کی گرتی ہو ئی صحت سے با خبر فوج شایدہی ان کا ساتھ دے۔ چونکہ پوتن نے اپنا کوئی جانشین بھی منتخب نہیں کیا تھا۔ اس لئے اس کا امکان اور بھی زیادہ ہے کہ کسی نہ کسی مرحلہ پر روسی فوج بھی عوام کے ساتھ ہو جائے گی۔ اب چونکہ ٹرمپ بھی نہیں ہیں ، اس لئے امریکہ کی طرف سے بھی پوتن کو مدد نہیں مل سکتی۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ روس میں تو یک جماعتی بلکہ یک شخصی حکومت ہے ، جن ممالک میں جمہوریت ہے ، لیکن جہاں کے حکمراں پوتن ہی کی طرح مطلق العنان ہیں ان کیلئے بھی پوتن کے خلاف بغاوت بہت چشم کشا ثبت ہو سکتی ہے۔ ایک بارپھر یہ ثابت ہو رہا ہے کہ کسی بھی ملک میں سب سے بڑی طاقت اس ملک کے عوام ہوتے ہیں ، اس ملک کے حکمراں نہیں ۔ روس کے واقعہ سے تمام حکمرانوں کو سبق لینا چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK