EPAPER
Updated: May 25, 2021, 9:24 AM IST | New Delhi
ہائی کورٹ نے سوال کیاکہ جب دوا کی قلت تھی توانہیں بڑی مقدار میں دوا کیسے ملی
دہلی ہائی کورٹ نے بی جےپی کے رکن پارلیمنٹ گوتم گمبھیر اور ان دیگر سیاسی لیڈروں کے خلاف انکوائری کا حکم دیا ہے جودواؤں کی قلت کے وقت بڑی مقدار میں کورونا کی دوا خرید کر عوام میں تقسیم کر رہے تھے۔ کورٹ نے کہا ہے کہ گوتم گمبھیر کی نیت بھلے ہی اچھی رہی ہو مگر انہوں نے جو کچھ کیا وہ غلط تھا۔ کورٹ نے عام آدمی پارٹی کے لیڈر پریتی تومر اور پروین کمار کے خلاف بھی جانچ کرکے رپورٹ دینے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس وِپن سنگھی اور جسمیت سنگھ کی دو رکنی بنچ نے ہدایت دی ہے کہ ڈرگس کنٹرولر جانچ کرے کہ کوئی فرد واحد فیبی فلو جیسی دوا کی ۲؍ ہزار اِسٹرپ کیسے خرید سکتا ہے وہ بھی اس وقت جب بازار میں اس کی قلت تھی۔ واضح رہے کہ فیبی فلو ان دواؤں میں سے ہے جسے ڈاکٹر کی تشخیص کے بغیر نہیں فروخت کیا جاسکتا۔ کورٹ نے رکن پارلیمنٹ گوتم گمبھیر کی صفائی پر کہا ہے کہ’’گوتم گمبھیر نے یقیناً یہ سب اچھی نیت سے کیا ہوگا۔ ہم ان کی نیت پر شبہ نہیں کررہے ہیں۔ وہ قومی کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ایسے وقت میں یہ طریقہ کار ذمہ دارانہ تھا جب بازار میں دوا کی قلت تھی۔‘‘ کورٹ نے مزید کہا ہے کہ ’’ہم ان کی نیت پر شبہ نہیں کر رہے ہیں مگر جس طرح سے انہوں نے کیا ہے اس کی وجہ سے عوام کی خدمت کے بجائے عوام کو نقصان ہو اہے۔ بھلے ہی ایسا انجانے میں ہوا ہو۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آپ بازار سے دوا کی اتنی ساری اسٹرپ خرید لیں۔ یقینی طور پر ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔‘‘
واضح رہے کہ ہائی کورٹ میں داخل کی گئی مفاد عامہ کی پٹیشن میں کورٹ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی ہے کہ جس دوا کیلئے مریض در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں وہ دوائیں سیاستدانوں کو آسانی سے دستیاب ہیں۔ عرضی گزار نے ایسے لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی ہے جن کے بڑی مقدار میں مذکورہ دوا خرید لینے سے مارکیٹ میں اس کی مزید قلت ہوگئی ہے۔ کورٹ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اس معاملے میں کارروائی دہلی پولیس کو نہیں بلکہ ملک کے ڈرگس کنٹرولر کو کرنا ہے۔ عدالت نے ڈرگس کنٹرولر سے کہا ہے کہ ’’آپ ہمیں بتائیں کہ کیا انکوائری ہوئی ہے؟ یہاں واضح طو رپر کیس بن رہا ہے۔ یہ بتایئے کہ کس زمرے میںکارروائی کی جانی چاہئے اور کس کے خلاف کی جانی چاہئے؟ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق یہ سب ڈرگس کنٹرولر کو کرنا ہے ، دہلی پولیس کو نہیں۔‘‘