EPAPER
Updated: December 10, 2021, 11:35 AM IST | Agency | Mumbai
مسلسل ۳؍ سال سے یوپی کی یہی پوزیشن ہے۔ مرکز نے راجیہ سبھا میں اعتراف کیا کہ رواں برس ۳۱؍اکتوبر تک ملک بھر سے انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق ۶۴؍ ہزار ۱۷۰؍ معاملے درج ہوئے ہیں جن میں سے ۲۴؍ ہزار۲۴۲؍ یوپی سے ہیں
اتر پردیش حکومت اور بی جے پی کی قیادت بھلے ہی ریاست میں نظم و نسق کو درست کردینے کا دعو ی کررہی ہو مگر اسی پارٹی کی سربراہی والی مرکزی سرکار نے اعتراف کیا ہے کہ یہ صوبہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ملک بھر میں سر فہرست ہے۔اتنا ہی نہیں مرکز کے اعدادوشمار کے مطابق یہ مسلسل تیسرے سال اس پوزیشن پربرقرار ہے ۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ۴۰؍ فیصد معاملے اتر پردیش میں درج ہوئےہیں۔ اس سلسلے میں مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائےنے گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں تحریری طور پر بتایا کہ قومی انسانی حقوق کمیشن میں درج تمام معاملات میں سے اکیلے اتر پردیش سے ۴۰؍فیصد آتے ہیں۔ان کے بقول گزشتہ ۳؍ برس سے یوپی اس معاملے میں سر فہرست ہے۔محکمہ داخلہ کے اعدادوشمارپیش کرتے ہوئے رائے نے ایوان بالا کو یہ بھی بتایاکہ رواں برس ۳۱؍اکتوبر تک ملک بھر سے انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق ۶۴؍ ہزار ۱۷۰؍ معاملے درج ہوئے ہیں جن میں سے ۲۴؍ ہزار۲۴۲؍صرف یوپی سے ہیں۔
ڈی ایم کےکے رکن پارلیمنٹ ایم شنمگم کے ایک سوال کا تحریری جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ نے بتایا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق معاملوں میں کمی آرہی ہے جو اعدادوشمار سے صاف ہے۔
ان کے مطابق ۲۰۱۸ءمیں ملک بھر میں ایسی شکایتوں کی تعداد ۸۹؍ ہزار ۵۸۴؍تھی جو ۲۰۱۹ءمیں گھٹ کر ۷۶؍ہزار ۶۲۸؍اور ۲۰۲۰ء میں ۷۴؍ ہزار ۹۶۸؍تک پہنچ گئی تھی۔ اسی طرح رواں برس ۳۱؍اکتوبر تک ایسے ۶۴؍ ہزار ۱۷۰؍ معاملے درج ہو ئے ہیں ۔
جہا ںتک اتر پردیش میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ان کی قومی انسانی حقوق کمیشن میں شکایتوں کا سوال ہے تو یہاں سے ۲۰۱۸ء میں ۴۱؍ ہزار۹۴۷ ، ۲۰۱۹ءمیں۳۲؍ ہزار ۶۹۳؍اور ۲۰۲۰ءمیں۳۰؍ ہزار ۱۶۴؍اور رواں برس ۳۱؍اکتوبر تک ۲۴؍ ہزار ۲۴۲؍تک درج ہوئے ہیں۔
غور طلب ہے کہ ملک بالخصوص اتر پردیش میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی شکایتیں میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں۔ عالمی میڈیا میں بھی کبھی کبھی یہ بحث کاموضوع رہا ہے۔ عالمی ادارہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ۲۰۲۰ءکی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اتر پردیش میں بطور خاص حکومت مخالف آوازوں کو کچلنے کی بھر پور کوشش دیکھی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ موجودہ حکومت پر اکثر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کودبانے کے لئے مخالفین کے خلاف یہ گینگیسٹر اور این ایس اے جیسے سخت ا یکٹ تک لگا دیتی ہے۔ ڈاکٹر کفیل خان کا معاملہ اسکا واضح ثبوت ہے۔انہوں نے بی آر ڈی اسپتال گورکھپور میں آکسیجن کی کمی کے سبب بچوں کی اموات معاملے پر میڈیا میں حقیقت بیان کردی تو انہیں سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا ۔ پہلے معطل اور پھر برخاست کردیا گیا جبکہ تمام جانچ کمیٹیوں اور عدالت نے انہیں بری قرار دے دیا تھا۔
اسی طرح این آر سی اورسی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف بھی یوگی حکومت نے انتہائی سخت رخ اپنایا ۔ مظاہرین کوگرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی پراپرٹی ضبط کرنے تک کی بھی کارروائی کی ،حالانکہ عدالت نے ان میں سے بیشتر معاملوں میںحکومت کو کارروائی نہ کرنے کی سخت ہدایتیں دی ہیں۔
حتیٰ کہ قومی انسانی حقوق کمیشن نے بھی بار بار یوپی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔یوگی حکومت کی انکائونٹر پالیسی کے خلاف سول سوسائٹی بار بار اسے تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے جبکہ کئی ایک معاملوں میں قومی انسانی حقوق کمیشن نے ڈی جی پی اور چیف سیکریٹری تک کو نوٹس بھیجا ہے۔خواتین مخالف کئی جرائم میں پولیس کیخلاف کمیشن تک شکایت پہنچی ہے جن پربھی اس طرح کے نوٹس بھیجے گئے ہیں۔