EPAPER
Updated: February 03, 2022, 1:46 PM IST
| Khalid Shaikh
؍۱۰؍ فروری سے شروع ہونے والے انتخابات میں سبھوں کی نظریں یوپی پر ہیں جو جسامت اورآبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ یہاں مذہب اور ذات پات کی سیاست کو جو مقام حاصل ہے وہ دوسری ریاستوں سے کہیں زیادہ ہے۔
الیکشن کا موسم آتے ہی وہ قواعد شروع ہوجاتی ہے جس کی اجازت آئین دیتا ہے نہ قانون۔ صوبائی انتخابات کی وجہ سے یہ موسم سال بھر رہتا ہے اوراس میں ہونے والی قواعد سیاسی نظام اور انتخابی مہم کا حصہ بن گئی ہے چنانچہ ایک طرف لیڈروں کی خریدوفروخت کا بازار لگتا ہے، اپوزیشن لیڈروں کے گھروں اور دفتروں پرچھاپے مارے جاتے ہیں تو دوسری طرف ووٹروں کو رجھانے کے لئے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں اورللچانے کے لئے تحفے تحائف اور وظائف کی بارش کی جاتی ہے۔ بی جے پی لیڈر اس میں طاق واقع ہوئے ہیں اور چونکہ مرکز اور چناؤ والی ریاستوں میں بی جے پی حکمراں ہے اس لئے انتخابی مہم کو ہندو۔ مسلم رنگ دیئے بغیر بات نہیں بنتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان غلط کاریوں کا نوٹس عدلیہ لیتا ہے نہ الیکشن کمیشن۔ مؤخرالذکر یہ کہہ کر پلّہ جھاڑتا ہے کہ اس کی عملداری ضابطہ ٔ اخلاق کے نفاذ کے بعد شروع ہوتی ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ ضابطہ نافذ ہونے کے بعد بھی پارٹیاں من مانی کرتی پھرتی ہیں اور کمیشن نوٹس جاری کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرپاتا ہے۔ کووڈ کے پیش نظر کمیشن نے ریلیوں پر پابندی لگا کر گھر گھر پرچارکے لئے پانچ افراد پر مشتمل گروپ کی اجازت دی تھی جس پر کسی پارٹی نے عمل نہیں کیا۔ اسے ہندوستان کی بدقسمتی کہئے کہ ٹی این سیشن اور لنگڈوہ کے بعد اسے ان جیسا کوئی چیف الیکشن کمشنر نہیں ملا۔ ۱۰؍ فروری سے شروع ہونے والے انتخابات میں سبھوں کی نظریں یوپی پر ہیں جو جسامت اورآبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ یہاں مذہب اور ذات پات کی سیاست کو جو مقام حاصل ہے وہ دوسری ریاستوں سے کہیں زیادہ ہے۔ چنانچہ ایودھیا سے لے کر کسان آندولن تک اورلنچنگ سے لے کر لوجہاد تک کے اثرات آپ کو دوسری ریاستوں اور بالخصوص بی جے پی ریاستوں میں واضح طورپر ملیں گے۔یوپی کو ہندوتوا سیاست کی اصلی اور قدیم تجربہ گاہ ہونے کا شرف بے وجہ نہیں ہے۔ یوپی وہ ریاست ہے جہاں مسجد۔ مندر تنازع نے جنم لیا۔ جس کی بازگشت دوسری ریاستوں میں بھی سنی گئی۔ یہاں اڈوانی کی رتھ یاترا کے بعد بی جے پی کو پہلی بار اقتدار میں آنے کا موقع ملا ۔ یہی وہ ریاست ہے جہاں بی جے پی نے اپنی ’برہمن بنیا پارٹی ‘ شبیہ کو بدلنے کے لئے سوشل انجینئرنگ کاسہارا لیا ۔ اس وقت اٹل بہاری واجپئی جو ذات کے برہمن اورپارٹی کے سب سے مقبول اور کرشماتی لیڈرتھے، پارٹی نے انہیں حکومت کی قیادت سونپنے کے بجائے پسماندہ ذات سے تعلق رکھنے والے کلیان سنگھ کوسونپی ۔ ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی الیکشن اور ۲۰۱۷ء کے اسمبلی الیکشن میں ملی کامیابی اسی سوشل انجینئرنگ اور کانگریس کے دوسرے دور میں ہوئی بداعمالیوں کا نتیجہ تھی۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوتوا کی سیاست کو جو فروغ ملا ، اس سے ملک میں عدم رواداری اور مذہبی اور جاتی واد تشدد میں شدت آئی جس کا شکار اقلیتیں، پسماندہ طبقہ اور دلت ہوئے۔ خود مودی کا تعلق پسماندہ طبقے سے ہے لیکن انہوں نے کبھی اپنی برادری پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند نہیں کی ۔ہندوتوا کی سیاست بھلے ہی مودی اور پارٹی کے لئے نفع بخش ثابت ہوئی ہو، بین الاقوامی سطح پر ملک اور مودی کو خفّت کا سامنا کرنا پڑا، یہ اوربات ہے کہ موٹی چمڑی کا مالک ہونے کی وجہ سے ان پر کوئی تنقیدوتنقیص اثر نہیں کرتی ہے۔ ۲۰۱۹ء کے الیکشن میں گزشتہ کے مقابلے ملی بڑی کامیابی میں سرجیکل اسٹرائک کا ہاتھ تھا جس نے مودی کو ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ بناڈالا۔کاش وہ اس جرأت رندانہ کا اظہار لدّاخ اورشمال مشرقی سرحدوں پر چینی دراندازی کے خلاف بھی کرتے توکچھ اور بات ہوتی لیکن وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ وجہ بتانے کی ضرورت نہیں آپ خود سمجھ لیجئے۔ ہم اتنا جانتے ہیں کہ گزشتہ دوبرسوں میں ملک میں جو تبدیلیاں آئی ہیں انہیں مودی اور بی جے پی کے لئے خوش آئند نہیں کہا جاسکتا۔ اس عرصے میں کورونا وائرس کی عالمی وبا نے ہندوستان میں جو قہر ڈھایا اورجس طرح ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی وارننگ کو نظر انداز کیا گیا اس نے لاکھوں کی جانیں لیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ برادرانِ وطن کواپنے عزیزوں کا کریا کرم کرنے کے بجائے نعشوں کو گنگاکے سپرد کرنا پڑا۔ کووڈ۔۲؍ پہلے سے زیادہ تباہ کن اورہلاکت خیز ثابت ہوا۔ اس سے نمٹنے میں جو بدنظمی دیکھی گئی اورجس طرح اموات کی تعداد میں غلط بیانی سے کام لیا گیا اس کا پول بین الاقوامی میڈیا نے کھولا۔ کووڈ نے سماج کے ہرشعبے کو متاثر کیا۔ لاکھوں بیروزگار ہوگئے۔۸۴؍فیصد لوگوںکی آمدنی گھٹ گئی ۔ معیشت اور معاش پر اس کا جو اثر ہوا ہندوستان اس سے آج بھی ابھرنہیں پایا ہے۔سیاسی سطح پر بھی بی جے پی کو ناکامی ہاتھ آئی۔ بنگال اور دہلی میں مودی۔ شاہ کی تمامتر کوششوں کے باوجود پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مہاراشٹر اورجھارکھنڈ میں اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا۔ رہی سہی کسر کسان آندولن نے پوری کردی۔ نتیجتاً مودی کو زرعی قوانین واپس لینے پڑے اورکسانوں کے بیشتر مطالبات کو منظور کرنا پڑا۔ لیکن ن پر کسی قسم کی پیش رفت نہ ہونے سے کسان آج بھی ناراض ہیں۔ کسان آندولن کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ راکیش ٹکیت اور دیگر کسان لیڈروں کی کوششوں سے جاٹ اور مسلمان ۲۰۱۳ء کے مظفر نگر فساد کی تلخیوں کو بھلا کرایک ہوگئے مغربی یوپی میں ان دونوں قوموں کا دبدبہ ہے۔ ۲۰۱۹ء کے الیکشن میں جاٹ قوم کے ۹۱؍ فیصد ووٹروں نے اور پسمااندہ ودیگر پسماندہ طبقات کے لوگوں نے بڑی تعداد میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ آرایل ڈی کے جاٹ لیڈر جینت چودھری نے سماج وادی پارٹی کے گٹھ بندھن کا حصہ بن کر او ر بی جے پی کے اوبی سی لیڈروںنے ایس پی میں شامل ہوکر یوگی حکومت کیلئے پریشا نیاں کھڑی کردی ہیں۔ اکھلیش یادو بی جے پی کیلئے سب سے بڑے چیلنجر بن کر ابھرے ہیں۔ بی جے پی لیڈروں کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ جاٹوں کو اپنی طرف کرنے کیلئے مظفر نگر میں قدم رکھتے ہی وہ فسادات کی اورکیرانہ میں ہندوؤں کے نقل مکانی کی دہائی دینے لگتے ہیں۔ امیت شاہ نے تویہ کہہ کر فراخدلی کی حد کردی کہ جینت چودھری کے لئے ہمارے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔ مودی نے بھی ورچوئل میٹنگ میں مظفر نگر کا رونا رویا۔کیوں؟ یہ ہم آپ پرچھوڑتے ہیں۔