EPAPER
Updated: August 10, 2021, 7:53 AM IST | Lucknow
ریاستی لاء کمیشن جلد ہی یہ مسودہ وزیر اعلیٰ کو سونپے گا۔۱۷؍ اگست سے شروع ہونے والے اسمبلی کے مانسون اجلاس میں پیش کرنے اور منظوری حاصل کرنے کے آثار، آرڈیننس کی راہ بھی خارج از امکان نہیں ۔ ریاستی لاء کمیشن کا دعویٰ، ۸۵۰۰؍افراد میں سے صرف ایک فیصد یعنی ۴۰؍افراد نے اس کے خلاف رائے دی ہے
تر پردیش میں آبادی کنٹرول سے متعلق بل کا حتمی مسودہ تیار ہوگیا ہے۔ ریاستی لا کمیشن اس مسودے کو جلد ہی وزیر اعلیٰ کو پیش کرے گا۔ ریاستی حکومت کے سربراہ کو مسودہ ملنے کے بعد اسے سرکارکابینی میٹنگ میں غور و خوض کر سکتی ہے جہاں سے منظوری ملنے کے بعد عین ممکن ہے کہ آئندہ اسمبلی اجلاس میں اس بل کو پیش بھی کردیا جائے۔یہ اجلاس ۱۷؍ اگست سے شروع ہونے والا ہے۔ ویسے حکومت کے پاس آرڈیننس کی راہ بھی ہے، جو اکثر ریاستی حکومت اپناتی رہی ہے۔
اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات تک آبادی کے نام پر ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ پر رکھنے کا پورا انتظام حکمراں جماعت بی جے پی اوراس کی ذیلی تنظیموں نے کرلی ہے۔ ریاستی لاء کمیشن نے بھی عین الیکشن سے قبل اس ایشو پر مسودہ تیار کر کے انہیں ایک ہتھیار فراہم کردیا ہے۔اب لاء کمیشن نے اس مسودے کو حتمی شکل دے دی ہے اور اسے جلد ہی وزیرا علیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو سونپ دیا جائے گا۔ یوگی اس مسودہ کو آئندہ کابینی میٹنگ میں رکھ سکتے ہیں جہاں سے منظوری کے بعد اس سے متعلق بل اسمبلی میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ اسمبلی اجلاس ۱۷؍اگست سے شروع ہونے والا ہے ، جس میں ایک ہفتہ ہی رہ گیا ہے، اس لئے امید ہے کہ کل پرسوں میں ہی کابینی میٹنگ بلائی جاسکتی ہے اور آبادی کنٹرول سے متعلق بل لانے کے فیصلےپر حتمی مہر لگ جائے تاکہ اسے اسمبلی اجلاس میں پیش کیا جاسکے۔ آئندہ اسمبلی سیشن میں عبوری بجٹ بھی پیش کیا جانا ہے، اسلئے مجوزہ بل پرمعقول بحث ہو پائے گی اس کے دور دور تک امکان نہیں۔ البتہ، بل کی منظوری پر شکو ک و شبہات کے کوئی بادل نہیں۔ اگر کسی وجہ سے آئندہ اجلاس میں یہ بل پیش نہیں کیا جاسکا تو سرکار آرڈیننس کے ذریعہ بھی اسے نافذ کرسکتی ہے۔ کئی حساس معاملوں بشمول انسداد تبدیلی مذہب آرڈیننس بھی یوگی حکومت لا چکی ہے، جسے بعد میں قانونی شکل دی گئی تھی۔
لاء کمیشن کے چیئر مین ریٹائرڈ جسٹس اے این متل یہ مسودہ پیر کی شام ہی وزیر اعلیٰ کو سونپنے والے تھے مگر یوگی آدتیہ ناتھ کے لکھنؤ سے باہر ہونے کے سبب تادم تحریر پیش نہیں کر پائے تھے۔ وزیر اعلیٰ خود اس معاملے میں خاصی دلچسپی لے رہے ہیں اور چند ہفتہ قبل آبادی کنٹرول سے متعلق اپنی پالیسی کا انہوں نے نہ صرف اعلان کیا تھا بلکہ ایک کتابچہ بھی جاری کیا تھا۔ریاستی لاء کمیشن نے ابتدائی مسودے پر جو رائے و صلاح مانگی تھی، اس پر بقول کمیشن چیئرمین کافی مثبت رد عمل آیا ہے۔اے این متل کے مطابق، رائے اور صلاح دینے والے ۸۵۰۰؍لوگوں میں سے صرف ایک فیصد یعنی ۴۰؍افراد نے اس کے خلاف رائے دی ہے۔
غور طلب ہے کہ ریاستی حکومت اپنی میعاد کار کے آخری مرحلے میں ہے اور آئندہ اسمبلی الیکشن سے قبل ہر حال میں اتر پردیش آبادی کنٹرول ،استحکام وفلاح و بہبود بل-۲۰۲۱ء لانا چاہتی ہے۔ حالانکہ، ریاستی لاء کمیشن نے کہا ہے کہ مذکورہ مسودہ کیلئے اس سے نہیں کہا گیا تھا مگر اس نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے یہ تیار کیا ہے۔ کمیشن نے ابتدائی مسودے پر لوگوں کی رائے لینے کے بعد حتمی شکل دے دی ہے۔ کمیشن کے مطابق، ۱۰؍دنوں میں کل ۸۵۰۰؍افراد نے مشورے دیئے جن میں سابق جج، بیوروکریٹس، وکلااور غیر مقیم ہندوستانی بھی شامل ہیں۔ لاء کمیشن نےان مشور و ں ، آراء اور صلاح کو۵۳؍زمروں میں رکھ کرحتمی مسودہ تیار کیا ہے۔حالانکہ، ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ فائنل ڈرافٹ کی شکل و صورت و اہم نکا ت کیا ہیں مگر جسٹس اے این متل اور حکومتی ذرائع پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں کہ ریاستی حکومت دو سے زائد بچوں کی صورت میں زیادہ سے زیادہ صرف پنچایت و بلدیہ الیکشن لڑنے پر ہی پابندی لگا سکتی ہے کیونکہ اسمبلی و پارلیمانی الیکشن ریاستی حکومت کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کمیشن کو ایک دلچسپ مشورہ یہ بھی ملا ہے کہ دو یا اس سے کم بچوں والے والدین کو حکومت مفت حج کرائے۔
حکومت کی آبادی کنٹرول پالیسی اور لاکمیشن کے ابتدائی ڈرافٹ کا جائزہ لیں تو یہ صاف ہے کہ یہ قانون سختی سے نافذ کرنے کی تیاری ہےاور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سرکاری مراعات و گرانٹس سے محروم ہونا پڑسکتا ہے۔ حکومت نے ایسی ۷۷؍سرکاری اسکیموں و گرانٹس کی نشاندہی کی ہے ، جس سے یہ لوگ محروم رہ سکتے ہیں۔ سرکاری ٹھیکے، لائسنس، ٹینڈر کی دوڑ سے انہیں باہر رکھنے کی بھی صلاح دی گئی ہے۔ ان کے حق رائے دہی کو بھی ختم کردینا چاہئے۔ علاوہ ازیں،یہ رائے بھی ملی کہ ایک سے زائد شادی پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہئےمگر دو بیٹیوں کی صورت میں تیسرے بچے کی چھوٹ بھی ملنی چاہئے۔ حالانکہ، کچھ لوگوں نے یہ بھی رائے رکھی کہ دو لگاتار بیٹے ہونے پربھی تیسرے بچے کی چھوٹ ملنی چاہئے۔ لا کمیشن کے چیئر مین کے بقول، کئی لوگوں نے جنین کشی میں اضافے کا خدشہ تو کچھ لوگوں نے پیدائش کے بعدبھی بیٹیوںکےقتل کا خوف ظاہر کیا ہے۔
البتہ، ایک بچہ والوں کو بطور خاص کئی خاص مراعات بھی مل سکتی ہیں، جن میں ان کے بچہ کو مفت تعلیم، علاج، انشورنس شامل ہیں۔یہ بھی بتاتے چلیں کہ وزیرا علیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے جوریاستی آبادی کنٹرول پالیسی جاری کی تھی، اس میں ۲۰۳۰ءتک برتھ ریٹ ۱ء۹؍فیصد کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔یہ برتھ ریٹ ابھی ۲ء۷؍فی ایک ہزار خواتین ہے۔