Inquilab Logo Happiest Places to Work

حجاب تنازع عالمی سطح پر رُسوائی کا سبب ،متعدد مفکرین نے بھی آواز بلند کی

Updated: February 13, 2022, 11:27 AM IST | Washington

امریکی سفیر برائے مذہبی آزادی نےکہا کہ اسکولوں میں حجاب پر پابندی سے لڑکیوں کی نفسیات اور تعلیم دونوں متاثر ہو تی ہے۔ نوم چومسکی ، ہرش مندر ، جان سفٹن اور انّا پورنا مینن نےموجودہ تنازع کو ’اسلامو فوبیا ‘کی بدترین شکل قرار دیا

Female students can be seen holding banners in support of hijab in Jaipur. (PTI)
جے پور میں حجاب کی حمایت میں منعقدہ مظاہرے میں طالبات کو ہاتھوں میں بینر لئے دیکھا جاسکتا ہے۔ (پی ٹی آئی )

 کرناٹک کے کالج میں ہونے والا حجاب تنازع اب عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ اس پر نہ صرف امریکہ کی جانب سے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے بلکہ دنیاکے متعدد معتبر مفکرین نےتو اسے اسلامو فوبیا کی بدترین شکل قرار دیا ہے اور اس پر فوری کارروائی کرتے ہوئے یہ سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ 
امریکہ کا ردعمل 
 دنیا بھر میں مذہبی آزادی پر نظر رکھنے اور رپورٹ کرنے والے امریکی حکومت کے ادارہ برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (آئی آر ایف) نے کالج کیمپس  کے تنازع پر کرناٹک حکومت پر شدید تنقید کی ہے۔  اس کا کہنا ہے کہ مذہب کی آزادی میں لباس کے انتخاب کی آزادی بھی شامل ہے۔ ادارہ  کے سفیر راشد حسین نے کرناٹک تنازع کا ذکر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ کرناٹک کے حکام کو مذہبی لباس کا تعین نہیں کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اسکولوں میں حجاب پر پابندی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔مذہبی آزادی میں کسی کو بھی  کوئی بھی مذہبی پوشاک انتخاب کرنے کا اختیار شامل ہے۔ اسکولوں میں حجاب پر پابندی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرتی ہے اور یہ خواتین اور لڑکیوں کو حاشیہ پر لانے کا کام کرتا ہے۔ واضح رہے کہ عالمی مذہبی آزادی کا ادارہ امریکی دفتر برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے تحت آتا ہے اور اس کی طرف سے ماضی میں بھی ہندوستان  میں بڑھتی  مذہبی کشیدگی پر تبصرے کئے گئے ہیں۔
نوم چومسکی کی شدید تنقید
 دنیا بھر میں حقوق انسانی کے سب سے بڑے علمبردارمشہور مفکر نوم چومسکی نے اس معاملہ میں  بی جے پی ، مودی حکومت اور کرناٹک حکومت پر شدید تنقید کی ۔ انہوں نے حقوق انسانی سے متعلق منعقدہ ۱۷؍ تنظیموں کے   ایک پروگرام کے دوران اس معاملہ پر لب کشائی کرتے ہوئےکہا کہ ’’ ہندوستان میں اسلاموفوبیا اپنی خطرناک ترین اور بدترین شکل میں پنپ رہا ہے۔ یہاں بی جے پی، مودی کی قیادت میں منظم طریقے سے ہندوستان کی سیکولر جمہوریت کا قلع قمع کررہی ہے اوراسے نفرت پر مبنی ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔‘‘  انہوں نے مزید کہا کہ سیکولر ازم کو ختم کرنے کے لئے اب تک جو کچھ کیا گیا وہ ڈھکے چھپے طریقے سے تھا لیکن اب انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ آزاد خیالی اور حقوق انسانی کو معطل کیا جارہا ہے اور یہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے معاملہ میں انتہائی منظم طریقے سے ہو رہا  ہے۔
دیگر مفکرین نے بھی آواز بلند کی 
 معروف سماجی کارکن اورکالم نگار ہرش مندر نے بھی حجاب کے تنازع پر مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے کہا کہ حجاب تنازع کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کے عام لوگ بھی نفرت کے پجاریوں کی باتوں میں آگئے ہیں اور وہ خودکو انتہائی اعلیٰ و ارفع سمجھ رہے ہیں لیکن وہ یہ با ت بھول جاتے ہیں کہ ہٹلر نے جرمنی میں اسی طرح سے ذہن سازی کی تھی اور پھر یہودیوں کا قتل عام ہوا تھا ۔ یہ بات ہندوستانیوں کو جتنی جلد سمجھ میں آجائے اتنا اچھا ہے۔  ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈائریکٹر جان سفٹن نے کہا کہ ’’ ہندوستان کے بہترین آئین کو  سب سے بڑا خطرہ وہاں کی حکومت سے ہی ہے جو اکثریت کے مذہب کو ملک اور حکومت کے مذہب کے طور پر پیش کررہی ہے۔  اس طریقے کو روکا جانا چاہئے ورنہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی چین جیسی سوسائٹی میں تبدیل ہو جائے گی۔ ‘‘ ویسٹ منسٹر یونیورسٹی کی پروفیسر انّا پورنا مینن نے کہا کہ ہندوستان اقلیتوں کے لئے خطرناک ملک بنتا جارہا ہے۔ یہا ں جان بوجھ کر حالات خراب کئے جارہے ہیں جسے روکنے کے لئے عالمی تنظیموں کے ساتھ ساتھ اہم حکومتوں کو بھی آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ یہ پروگرام دنیا کی ۱۷؍ اہم حقوق انسانی کی تنظیموں نے منعقد کیا تھا جن میں ایمنسٹی انٹر نیشنل ، جینو سائڈ واچ ، انڈین امریکن مسلم کونسل ، جوبلی کیمپین ، انٹر نیشنل سوسائٹی برائے پیس اینڈ جسٹس اور دیگر شامل ہیں


  ملک میں مسلمانوں کے باوقار تعلیمی ادارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی حجاب تنازع کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ یہاں بھی طالبات نے حجاب کی حمایت میں مظاہرہ کیا۔  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سیکڑوں طالبات نے جمعہ اور سنیچر کو  احتجاج کیا اور کرناٹک کی طالبات کی حمایت کرتے ہوئے ان سے اپنے حق پر ڈٹے رہنے کا مطالبہ کیا۔ جمعہ کو ہونے والے مظاہرے میں کم از کم ۳۰۰؍ طالبات شامل تھیں جبکہ سنیچر کو ہونے والا مظاہرہ قدرے چھوٹا تھا لیکن اس میں بھی ۱۰۰؍ کے قریب باحجاب طالبات اور خواتین پہنچیں۔ ان سبھی نےبی بی مسکان کی طرح اللہ اکبر کے نعرے بھی بلند کئے اور حجاب کو اپنا حق قرار دیتے ہوئے اسے کسی بھی قیمت پر نہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔  اس دوران یونیورسٹی کے گیٹ پر پولیس کا بھاری بندوبست رہا تاکہ کوئی حالات خراب کرنے کی کوشش نہ کرے۔
 دوسری طرف ہندوستان نے کرناٹک میں حجاب تنازع پر بعض ممالک کے تبصروں کو ملک کے اندرونی معاملات میں ’ناپسندیدہ مداخلت ‘قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے آئینی اور جمہوری عمل میں ایسے مسائل سے نمٹنے کا طریق کار موجود ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے یہاں میڈیا کے سوالات کے جواب میں کہا کہ کرناٹک کے کچھ تعلیمی اداروں میں لباس سے متعلق ایک مسئلہ کرناٹک ہائی کورٹ  میں زیر سماعت  ہے۔ ہمارے آئینی نظام اور جمہوری عمل میں ایسے مسائل پر مناسب بحث اور حل کا موثر نظام موجود ہے۔ باگچی نے کہا کہ جو لوگ ہندوستان کو جانتے ہیں وہ ان حقائق کی قدر کرتے ہیں۔ ہم ہندوستان کے اندرونی معاملات پر جذباتی طور پر محرک تبصروں کا خیرمقدم نہیں کرتے ہیں۔ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے اس لئے ایسے تبصروں سے گریز کیا جائے۔ 
  واضح رہے کہ ملک میں طالبات کے حجاب پہننے پر بھگوا عناصر کے اعتراض  اور اسکولوں نیز کالجوں  میں  انہیں   داخل نہ ہونے دینے کی وجہ سے پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ داغدار ہورہی ہے۔ 

hijab Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK