EPAPER
Updated: February 13, 2022, 9:46 AM IST | Aakar Patel | Mumbai
بحیثیت قوم یہ ملک کے تمام فرقوں کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کے حقوق پر روک ٹوک کے واقعات پر توجہ اور غور و خوض کریں کیونکہ اس قسم کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
شہریوں کے بنیادی حقوق بمقابلہ حکومتی حقوق (اختیارات) کا ایک اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔ جیسا کہ اب معمول بن گیا ہے، یہ معاملہ بھی اقلیتوں سے متعلق ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آئین کی دفعہ ۲۵؍ حکومت کو یہ اختیار دیتی ہے کہ اسکارف پہننے پر پابندی لگائے۔ اس دفعہ میں درج ہے: ’’عوامی نظم و نسق (پبلک آرڈر)، اخلاقیات، صحت اور اس دفعہ کی دیگر شقوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تمام لوگ (شہری) اپنے ضمیر کی آزادی، اپنے مذہب کی قدروں کو بیان کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کے لئے آزاد ہیں۔‘‘
اس کا براہ راست مفہوم یہی ہے کہ افراد ا(شہریوں) کے حقوق کو اولیت اور فوقیت حاصل رہنی چاہئے۔ خواتین کا کہنا ہے کہ اُن کے نزدیک سر ڈھانپنا مذہبی قدر ہے اور آئین بنیادی حق کے طور پر اس کی ضمانت دیتا ہے لیکن حکومت، جیسا کہ اس نے ہمیشہ کیا ہے، کا اصرار ہے کہ ’’شہری کیا کریں اور کیا نہ کریں‘‘ میں حکومت کو استحقاق زیادہ ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ عدلیہ اس کیس میں مناسب طرز عمل اپنائے گا لیکن اب تک کا ریکارڈ کچھ اور کہتا ہے کیونکہ بسااوقات ہمارا نظام ِ انصاف حکومت ہی کی پشت پناہی کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستانیوں کیلئے آزادی کاغذ پر درج ایسا حق ہے جسے وہ بآسانی حاصل نہیں کرسکتا۔ بنیادی حقوق بھی، جنہیں حکومت کے عمل دخل کے بغیر مکمل طور پر حاصل ہونا چاہئے، وقتاً فوقتاً عمل دخل کے زیر اثر آتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر، تمام ہندوستانی شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے مگر حکومت نے کئی ایسے قوانین بنارکھے ہیں جن کے ذریعہ اظہار خیال کی آزادی مجرمانہ فعل کے دائرہ میں آجاتی ہے۔ کسی جگہ پر بہت سے لوگوں کے یکجا ہونے کی بھی مکمل آزادی نہیں ہے۔ اسی طرح آزادیٔ وابستگی بھی مکمل طور پر حاصل نہیں ہے جس کا مفہوم شہریوں کا منظم ہونا، کسی تنظیم سے وابستہ ہونا، مشترکہ فیصلہ کرنا وغیرہ پر محیط ہے۔ آپ ہی بتائیے کیا ان دونوں اُمور کی آزادی ہے؟
مناسب پیشہ اختیار کرنے اور اس سے روزی حاصل کرنے کی آزادی بھی آئین نے تفویض کی ہے لیکن بڑے جانوروں کے گوشت کا کاروبار کرنے والوں کو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا جہاں عدالت نے کہا کہ اسے مذہبی جذبات کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے عدالت نے بڑے کے گوشت کے پیشے سے وابستہ افراد کے حقوق محدود کردیئے۔
ایک اور پہلو ملاحظہ فرمائیے۔ عیسائیوں نے اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق طلب کیا اور اُنہیں وہ حق دے دیا گیا (برصغیر کے مسلمان مذہب تبدیل نہیں کرواتے مگر عیسائی حضرات ایک مشن کے طور پر یہ کام کرتے ہیں) مگر اُن کا یعنی عیسائیوں کا بھی یہ حق مختلف دیگر قوانین کے ذریعہ محدود اور سلب کردیا گیا چنانچہ اب تبلیغ (Propagation) جرم کے خانے میں شامل ہے۔
حجاب تنازع کے ذریعہ بھی اقلیتوں کےساتھ حکومت کے طرز عمل کا کچا چٹھا سامنے آگیا۔ جمعہ کو امریکہ کے سفیر برائے بین الاقوامی آزادیٔ مذہب نے ٹویٹ کیا کہ ’’آزادیٔ مذہب کے مفہوم میں یہ شامل ہے کہ لوگ اپنی پسند کا مذہبی لباس زیب تن کریں، حکومت ِ کرناٹک کو مذہبی اہمیت کے ملبوسات کی اجازت دینے نہ دینے کے سوال پر غور ہی نہیں کرنا چاہئے۔ اسکولوں میں حجاب پر پابندی عائد کرنا آزادیٔ مذہب کی خلاف ورزی اور خواتین کو حاشئے پر لانے کی کوشش کے مترادف ہے۔‘‘
ہم اُمید ہی کرسکتے ہیں کہ مذکورہ سفیر کی اپیل پر کان دھرنے کی ضرورت محسوس کی جائیگی مگر اس کا امکان کم ہے۔ عدلیہ اس بات کا تعین کرنا چاہتا ہے کہ آیا حجاب ’’لازمی مذہبی قدر‘‘ ہے یا نہیں۔ بہ الفاظ دیگر اس کا استعمال مذہبی نقطۂ نظر سے لازمی قرار دیا گیا ہے یا نہیں۔ عدلیہ بابری مسجد کیس میں، کہہ چکا ہے کہ ادائیگی ٔ نماز کیلئے مساجد ضروری نہیں ہیں۔
مذہبی لزومیت سے قطع نظر، حجاب کے جاری تنازع کا ایک سیاسی اور سماجی پہلو بھی ہے۔ مَیں مسلم خواتین کے ساتھ ساتھ پوری مسلم آبادی کے تعلق سے بڑی شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ ملک کی اس سب سے بڑی اقلیت کو منظم سازش کے تحت ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔ اُنہیں ایسی جگہوں پر بھی نماز سے روکا جارہا ہے جو حکومت نے نماز ہی کے مقصد سے اُنہیں فراہم (الاٹ) کی تھیں، گوشت خوری کے معاملے میں اُنہیں روکا ٹوکا جارہا ہے اور چوڑیوں کی فروخت پر بھی تنازع کھڑا کیا جارہا ہے۔ کشمیر میں کیا ہوا اور شہریت ترمیمی بل کا خلاصہ کیا ہے، ان باتوں کو بھی ڈرانے دھمکانے اور حاشئے پر لانے کی کوششوں کا حصہ سمجھنا چاہئے۔ اس لئے جب خواتین احتجاج کرتی ہیں تو اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ وہ من حیث القوم تمام مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ ایک طالبہ (مسکان خان) کا شرپسندوں کی بھیڑ کے خلاف مثالی بہادری کا مظاہرہ کرنا پوری قوم کے حقوق کی لڑائی کی علامت ہے۔ کالج احاطے میں مسکان خان کی مزاحمت کا ویڈیو دیکھ کر تمام ہندوستانیوں کو شرمندگی محسوس کرنی چاہئے کہ ہم کہاں آگئے۔
اگر حجاب اور اسکارف کے استعمال سے منع کیا جارہا ہے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس کا جواب مشکل نہیں۔ جمعہ کو سی این این نے شہ سرخی لکھی جس کا مفہوم ہے: ’’حجاب سے متعلق احتجاج ہندوستان میں جگہ جگہ پھیل گیا کیونکہ خواتین حجاب پر مُصر ہیں۔‘‘ یعنی روکا جائیگا تب بھی طالبات حجاب پہن کر ہی کالج آئینگی تب حکومت کو طے کرنا ہوگا کہ اُنہیں حجاب سے محروم کیا جائے یا تعلیم سے۔
ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو کیا ہوتا ہے یعنی جب عوام کی بڑی تعداد احتجاج کیلئے کمربستہ ہوتی ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ حکومت کو شہریت ترمیمی قوانین پر قدم پیچھے لینے پڑے (قوانین بنائے گئے مگر نافذ نہیں کئے گئے) اور زرعی قوانین واپس لئے گئے۔دونوں ہی معاملات میں عدلیہ کا رُخ پوری طرح مظاہرین کے ساتھ نہیں تھا تب بھی حکومت کو پیچھے ہٹنا ہی پڑا۔
ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوگا جیسا سی اے اے اور زرعی قوانین کے سلسلے میں ہوا، حکومت مزاحمت کے آگے خاموش ہوجائیگی اور خواتین کو حجاب یا اسکارف کا استعمال کرنے دیگی۔ مَیں چاہتا ہوں کہ خواتین کو روکا نہ جائے تاکہ احتجاج اور مزاحمت کی نوبت ہی نہ آئے۔ اس سے پہلے مجھے اُمید ہے کہ عدلیہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائے گا۔ n