EPAPER
Updated: February 15, 2022, 7:05 AM IST | Bangalore
درخواست کے باوجود یہ بھی رعایت نہیں دی گئی کہ اسکول میں داخل ہونے کے بعد نقاب یا حجاب اتار لیں، شدت پسندی پرشدید تنقیدیں
کرناٹک میں طلبہ کے ساتھ ہی ساتھ اب اساتذہ اور عملے کی خواتین کو بھی اسکول میں داخل ہونے سےقبل حجاب اور نقاب اتارنے پر مجبور کیا جارہاہے۔ اس سلسلے میں یہ درخواست بھی خاطر میں نہیں لائی گئی کہ سرعام حجاب اور برقع اتارنے پر مجبور کرنے کے بجائے طلبہ اور خاتون اساتذہ کوکیمپس میں داخل ہونے دیا جائے تاکہ وہ وہاں حجاب اور برقع اتار سکیں۔ اسکولوں کے انتظامیہ کے اس رویے کی سوشل میڈیا پر شدید تنقید بھی ہورہی ہے۔
یاد رہے کہ حجاب تنازع کے بعد بدھ ۹؍ فروری سے کرناٹک کے تمام اسکولوں میں تعطیل کا اعلان کردیا گیاتھا۔ اس بیچ کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب معاملے پر سماعت وسیع تر بنچ کے سپرد کی اور اپنے عبوری حکم میں تمام طلبہ کو حجاب، اسکارف، شال یا کوئی بھی مذہبی علامت پہننے سے انکار کردیا۔ پیر کو اڈپی، دکشن کنڑا اور بنگلور کے کچھ علاقوں میں دفعہ ۱۴۴؍ کے بیچ ہائی اسکول کھول دیئے گئے مگر ہائی کورٹ کے حکم کے نفاذ کے نام پر حجاب کے تعلق سے سختیاں بڑھادی گئیں۔ ایسے کئی ویڈیو منظر عام پر آئے ہیں جن میں اسکول پہنچنے پر طالبات کو گیٹ کے باہر ہی حجاب اتارنے کا حکم دیاگیا۔ کچھ طالبات مجبوراً حجاب اتار کر اسکول کیمپس میں داخل ہوئیں تو کچھ گھر لوٹ گئیں۔اس دوران خبررساں ایجنسی اے این آئی نے جو ویڈیو جاری کیا ہے اس میں ایک بچی کے والد درخواست کررہے ہیں کہ طالبات کو کم از کم حجاب کے ساتھ اپنے کلاس روم تک جانے دیا جائےتا کہ وہ وہاں اطمینان سے حجاب اتار سکیں۔
انتظامیہ اس کیلئے راضی نہیں ہوا ۔ والدین یہ کہتے ہوئے سنے جاسکتے ہیں کہ ’’وہ حجاب کےساتھ داخل ہی نہیں ہونے دے رہے۔‘‘ٹائمز ناؤ کے نامہ نگار دیپک بوپنّا نے مانڈیہ کے ایک اسکول کا ویڈیو شیئر کیا ہے جس میں دیکھا جاسکتاہے کہ کس طرح خاتون ٹیچروں کو بھی اسکول کے گیٹ کے باہر ہی برقع اور حجاب اتارنے کیلئے مجبور کیا جا رہاہے۔ عمران خان جو کرناٹک سے ٹائمز ناؤ کیلئے نامہ نگاری کرتے ہیں اور اس سے قبل سی این این آئی بی این، تہلکہ اور انڈین ایکسپریس کیلئے کام کرچکے ہیں، نے ٹویٹ کرکے بتایا ہے کہ مانڈیہ میں ضلع انتظامیہ نے ٹیچروں کو بھی حجاب کے ساتھ اسکول میں داخل نہ ہونے دینے کی باقاعدہ ہدایت جاری کی ہے۔
ٹویٹر پر کئی صارفین نے اسے مسلم طالبات کی سرعام بے عزتی قرار دیا ہے۔ آلٹ نیوز کے محمد زبیر نے ٹیچر کو حجاب اتارنے پر مجبور کرنے کا ویڈیو شیئر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے کہ ’’معاملہ یونیفارم کا تھا ہی نہیں۔ مسلم ٹیچر اور عملے کی اراکین کو بھی سرعام بے عزت کرتے ہوئے اسکول میں داخل ہونے سے قبل حجاب اتارنے پر مجبور کیا جارہاہے۔‘‘کوشک راج نے سوال کیا ہے کہ ’’کیا ہائی کورٹ یہ سب دیکھ رہا ہے؟‘‘ نیشنل ایوارڈ یافتہ فلم ساز ونود کاپڑی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس سے افسوسناک اور شرمناک تصویر کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ آئینی عہدوں پر بیٹھے ہوئے افراد مودی اور بی ایس بومئی کو شرم آنی چاہئےکہ آپ لوگ عوامی سطح پر ملک کی خواتین کو اس طرح بے عزت ہوتے خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘ اسٹینڈ اپ کامیڈین ابھیشیک بخشی نے ٹویٹ کیا ہے کہ ’’یہ خواتین کو اپنی پسند سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔‘‘اداکار سشانت سنگھ نے شرمندگی کااظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے کہ ’’پشتیں تھک جائیں گی ، مگر یہ کالک مٹ نہیں پائے گی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم اکثریتی طبقہ کیلئے یہ شرمناک دن ہے جو ناقابل معافی ہے۔‘‘
خیال ر ہے کہ کرناٹک کے ایک پری یونیورسٹی کالج سے شروع ہونے والا حجاب کا یہ تنازع ان دنوں ایک گرم موضوع بحث بن گیا ہے۔فرقہ پرستوں نے اس معاملے کو ہوا دے کر پورے ملک میں ایک اضطراب پیدا کردیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس تنازع کو اترپردیش کے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر قصداً پیدا کیاگیا ہے۔