Inquilab Logo Happiest Places to Work

اشتعال انگیز اور مسلم مخالفنعرہ بازی کے ۶؍ ملزم گرفتار

Updated: August 11, 2021, 8:35 AM IST | New Delhi

بی جےپی لیڈر اشوینی اُپادھیائے بھی پکڑے گئے۔ نفرت کے خلاف احتجاج کے نعرہ پر پولیس سرگرم، مظاہرہ نہیں ہونے دیا، رضاکاروں کو حراست میںلے لیاگیا

A large number of youths reached Jantar Mantar on Wednesday to protest against hate slogans. In the picture under review, the police are stopping them.Picture:INN
تصویر آئی این ایننفرت انگیز نعروں کےخلاف احتجاج کیلئے بدھ کو بڑی تعداد میں  نوجوان جنتر منتر پہنچے۔ زیر نظر تصویر میں پولیس انہیں روک رہی ہے۔

 دہلی پولیس نے ایک طرف جہاں جنتر منتر پر مسلمانوں  کے خلاف اشتعال انگیزنعرے بازی کے کیس میں بی جےپی لیڈر اشوینی اپادھائے سمیت ۶؍ افراد کو گرفتار کرلیا تودوسری جانب اس  نے نفرت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو جنتر منتر پر صدائے  احتجاج بلند نہیںکرنے دی۔ ’’پروٹیسٹ اگینسٹ ہیٹ‘‘ (نفرت  کے خلاف احتجاج) کیلئے  جنتر منتر پہنچنے والےرضاکاروں کو دہلی پولیس نے حراست میں لے لیا۔  
۶؍ افراد کی گرفتاری کی تصدیق
 جنتر منتر پر مسلمانوں  کے  خلاف اشتعال انگیز نعرے بازی کے الزام میں  ۶؍ افرادکی گرفتاری    کی تصدیق کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر آف پولیس  دیپک یادو نے بتایا کہ ’’بینک آف بڑودہ کے پاس منعقدہ پروگرام میں اشتعال انگیز نعرے بازی   کے تعلق سے کناٹ پیلس پولیس اسٹیشن میں  ایف آئی آر کے  اندراج کے بعد ۶؍ افرادکو گرفتار کیا گیا ہے۔ملزمین کی شناخت اشوینی اپادھیائے،  پریت سنگھ، دیپک سنگھ، دیپک کمار، ونود شرمااور ونیت باجپئی کے طورپر ہوئی ہے۔‘‘
شدید تنقیدوں کے بعد دہلی پولیس کی کارروائی
  یاد رہے کہ دہلی پولیس نے یہ گرفتاریاں  شدید تنقیدوں کے بعد کی ہیں۔ مسلم مخالف نعرے بازی کرنے والوں کی شناخت واضح ہونے کے باوجود پولیس نے ’’نامعلوم افراد‘‘ کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی جس کی وجہ سےاسے چوطرفہ تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ’بھارت جوڑو آندولن‘ کے بینر تلے منعقد کئے گئے اس پروگرام میں  مسلمانوں کے خلاف لگائے گئے نعروں کا ویڈیو منظرعام پر آنے اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر تیزی سے پھیل جانے  کی وجہ سے  قومی سیاست  میں ہلچل مچ گئی ہے اور اندیشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ یہ دہلی کو ایک بار پھر فرقہ وارانہ فساد کی آگ میں جھونکنے کی سازش کا حصہ  ہو سکتاہے۔ منگل کو  پروگرام کی مزید تصویروں کے منظر عام پر آنے کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ اس میں بی جےپی لیڈر گجیندر چوہان بھی شامل تھے۔  
صحافیوںکے ساتھ بھی بدتمیزی
 پروگرام کے دوران صحافیوں  کے ساتھ بھی بدتمیزی کی گئی اورانہیں جے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کیاگیا۔ یوٹیوب چینل نیشنل دستک  کے رپورٹر انمول پریتم ان رپورٹروں میں شامل ہیں جن کے ساتھ دھکا مکی کی گئی اور جے شری رام کہنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی۔ انمول  نے مارے پیٹے  جانے کے خطرہ کے باوجود بہادری کامظاہرہ کیا اور یہ کہتے ہوئے نعرہ لگانے سے انکار کردیا کہ جب ان کا دل چاہے گا وہ نعرہ لگائیں گے لیکن کوئی انہیں ڈرا دھمکا کر نعرہ لگانے پر مجبور کریگا تو وہ ایسا قطعی نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ دی وائر اور دیگر ویب پورٹلس کے رپورٹوں کے ساتھ بھی دھکا مکی کی شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔ 
نفرت کے خلاف آواز بلند کرنے پر قدغن
 جنتر منتر پراشتعال انگیزاور متنازع نعرہ بازی کرنے والوں کے خلاف منگل کو بڑی تعداد میںانصاف پسند سیکولرنوجوان اور رضاکار جنتر منترپر پہنچے مگر پولیس نے انہیں  مظاہرہ نہیں کر نے دیا ۔پر امن مظاہرین کو دہلی پولیس کی جانب سے زبردستی حراست میں لے لیا گیا۔اس دوران  کچھ مرد اور خواتین کے ساتھ پولیس اہلکاروں کی جانب سے دھکا مکی بھی کی گئی ۔ پولیس بس میں سبھی مظاہرین کو زبردستی بٹھا کر تھانہ مند ر مارگ لے گئی۔ 
 اتوار کو ایسی مستعدی نہیں دکھائی گئی
  حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دو روز قبل اتوار کو جب جنتر منتر پر مسلمانوں  کےقتل کے نعرے لگائےجارہے تھے تب دہلی پولیس تماشائی بنی ہوئی تھی۔ بغیر اجازت کئے جارہے اس مظاہرہ کو نہ روکا گیا نہ مظاہرین مسلمانوں کےخلاف نعرہ بازی کرنے پر ٹوکا گیا۔ اس کے برخلاف جب سوشل میڈیا پر تحریک چلا کر نوجوانوںکی بڑی تعداد منگل کو اشتعال انگیز نعرہ لگانے والوںکے خلاف اکٹھی ہوئی تو پولیس نے انہیں روک دیا ۔چند پر امن مظاہرین کو روکنے کیلئے بھاری تعداد میں دہلی پولیس  اور نیم فوجی دستوں کے اہلکاروں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے جنتر منتر چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔  پارلیمنٹ اسٹریٹ  پر ہی مظاہرین نے نعرہ لگانے شروع کردیئےمگر پولیس انہیں زبردست اپنی گاڑیوں  میںبٹھا کر پولیس اسٹیشن  لے گئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK