EPAPER
Updated: December 19, 2021, 7:00 AM IST | Aakar Patel | Mumbai
دو رپورٹیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ایک پیوپلز یونین فار سول لبرٹیز کی ہے جبکہ دوسری متعدد حقوق انسانی تنظیموں کی۔ ان میں عیسائی مخالف تشدد کی تفصیل اور پیٹرن کو موضوع بنایا گیا ہے۔یہ مضمون انہی رپورٹوں کے مشمولات پر مبنی ہے۔
اس ہفتے پیوپلز یونین فار سول لبرٹیز(پی یو سی ایل) نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کا موضوع کرناٹک کے عیسائیوں اور اُن کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملے ہیں۔ اسی ہفتے کرناٹک نے ایک ایسے قانون کا اعلان بھی کیا ہے جس سے اقلیتی طبقات کی مذہبی آزادی مزید متاثر ہوگی۔ پیوپلز یونین کی رپورٹ کے مرتبین میں راقم الحروف بھی شامل ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یونین کے مشاہدات سے اپنے قارئین کو آگاہ کروں۔
اس کا پس منظر یہ ہے کہ ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور یہ کیفیت پورے ملک میں پائی جارہی ہے۔ دسمبر ۲۰۲۱ء کے ابتدائی دو ہفتوں میں مدھیہ پردیش، ہریانہ اور کرناٹک سے عیسائیوں پر حملوں کی خبریں موصول ہوئیں۔ منظم تشدد کی ان وارداتوں کے ساتھ جو دوسرا خطرہ مذہبی اقلیتوں کو لاحق ہے وہ اُن قوانین کا وضع کیا جانا ہے جن سے مذہبی آزادی پر حرف آتا ہے اور اس کی تحدید ہوتی ہے۔ اس تحدید کا مظہر وہ قوانین ہیں جو ۲۰۱۸ء کے بعد سے بی جے پی کی اقتدار والی ریاستوں میں بنائے گئے مثلاً بین مذہبی شادی مخالف قانون۔ کرناٹک کی بی جے پی حکومت ریاست کی عیسائی عبادت گاہوں کا سروے بھی کروانا چاہتی ہے جس کا مقصد سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ عیسائی فرقہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے، مذہبی اُمور کی نگرانی ہو اور عبادت گاہوں کو نگاہ میں رکھا جائے۔
ایک مسئلہ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یہ ہے کہ نفرت کی بنیاد پر ہونے والے جرائم (ہیٹ کرائمس) کو حکومت علاحدہ زمرہ میں نہیں رکھتی اس لئے اس موضوع پر کوئی سرکاری دستاویز موجود نہیں ہے۔ اس سال کے اوائل میں جاری ہونے والی ایک تفتیشی (فیکٹ فائنڈنگ) رپورٹ میں نفرت کی بنیاد پر ہونے والے ۹۰؍ واقعات کی تفصیل اور عیسائیوں کے خلاف حملوں کے اُن ۳۰۰؍ واقعات کا خلاصہ ملتا ہے جو بنیادی طور پر شمالی ہند سے متعلق ہیں۔ یہ رپورٹ ’’ہندوستان میں عیسائیوں پر حملے‘‘ کے عنوان سے اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس، یونائیٹیڈ کرسچن فورم اور یونائٹیڈ اگیسنست ہیٹ جیسی تنظیموں کی تیار کردہ ہے۔ اس رپورٹ میں عیسائی مخالف واقعات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہ تفصیل کم و بیش وہی ہے جو پیوپلز یونین کے مشاہدات میں بھی درج ہوئی ہے بالخصوص ہنگاموں کا مقصد کہ عیسائیوں کو عبادت سے روکا جائے، اُن کے خلاف جھوٹی شکایت درج کرائی جائے اور پادری نیز دیگر لوگوں کو گرفتار کروایا جائے۔ کرناٹک میں جو عیسائی مخالف حملوں کی تفصیل جانے بغیر حملہ آوروں کے عزائم کو سمجھنا مشکل ہے۔ ایک منظم گروہ جو چند سو افراد پر مشتمل ہوتا ہے، اُس وقت چرچ میں داخل ہوتا ہے جب وہاں پریئر چل رہی ہوتی ہے۔ اس گروہ کے لوگ بھجن گانا شروع کردیتے ہیں۔ وقفے وقفے سے نعرے بازی ہوتی ہے۔ پھر یہ بتائے بغیر کہ تبدیلیٔ مذہب سے اُن کی کیا مراد ہے اور تبدیلی ٔ مذہب کے کن واقعات سے وہ ناراض ہیں، نعروں میں تبدیلیٔ مذہب سے متعلق الزامات بھی عائد کئے جاتے ہیں۔ اس دوران وہ، پریئر میں شامل لوگوں کے خلاف ہنگامہ شروع کردیتے ہیں اور اکثر و بیشتر پُر تشدد ہوجاتے ہیں۔ پولیس کو اس دھینگا مشتی کا علم ہوتا ہے مگر اس کے اہلکار یا افسران جائے واقعہ پر تب پہنچتے ہیں جب بہت کچھ ہوچکا ہوتا ہے۔ یہ گروہ اپنے ہنگامے یا حملے کی ریکارڈنگ کرتا ہے مگر چرچ کے لوگ ریکارڈنگ کرنا چاہیں تو اُنہیں روک دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اُن کے پاس خاطرخواہ ثبوت نہیں رہ جاتا جس کی بنیاد پر حملہ آوروں کی شناخت پولیس پر ظاہر کی جائے۔ گروہ کے افراد اپنے جھنڈوں، اسکارف اور نعروں کے ذریعہ یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کون ہیں تاکہ پولرائزیشن میں مدد مل سکے۔
پولیس، چرچ کی حدود میں شرپسندوں کے زبردستی داخل ہونے کو جرم قرار نہیں دیتی بالکل اُسی طرح جیسے میڈیا ’’زبردستی تبدیلیٔ مذہب‘‘ کے مفروضے کے آگے نہیں بڑھناچاہتا کہ کسی واقعہ کے پس منظر سے ہوتے ہوئے اس کی تہہ تک پہنچے اور تفتیشی صحافت کا حق ادا کرے۔ پادری اور دیگر مذہبی شخصیات اور معتقدین، جن پر زیادتی ہوئی، کے خلاف پولیس میں شکایات درج کرائی جاتی ہیں جبکہ مذہبی اُمور کی ادائیگی کے اُن کے بنیادی حق پر ضرب لگائی گئی ہوتی ہے۔ پولیس کا رویہ اکثر و بیشتر منفی ہوتا ہے جو معتقدین کی ذاتی زندگی تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔ اُسے یہ جاننے سے بھی دلچسپی ہوتی ہے کہ پریئر کیلئے آنے والے لوگ کس ذات اور طبقے کے ہیں۔ اس زیادتی کی وجہ سے کچھ عیسائی چرچ آنے سے گریز کرتے ہیں۔ جو ہنگامہ آرائی ہوتی ہے اُس کامقصد عبادت گاہوں کو بند کرانا ہی سمجھ میں آتا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں آپ کو یہ انکشاف بھی ملے گا کہ چرچ کے ذمہ داروں کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ سیلف ڈسپلن کو ملحوظ رکھیں۔ اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ ایک بار پولیس کو یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ عیسائی اپنی عبادت کیلئے ایک ایسے دن جمع ہورہے تھے جو کہ ہندوؤں کے تہوار کا دن تھا۔ مجموعی طور پر پولیس کا رویہ تشدد اور ڈرانے دھمکانے کے واقعات کو روکنا نہیں، مصالحت کروانا ہوتا ہے تاکہ لاء اینڈ آڈر کے نقطۂ نظر سے جب ’’لاء‘‘ کا نفاذ ممکن نہ ہو تو ’’آرڈر‘‘ یقینی ہوجائے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ تشدد اور ہراساں کرنے پر، جو فساد کی جڑ ہے، توجہ نہ دی جائے۔
یاد رہنا چاہئے کہ تشدد بنیادی طور پر ذات پر مبنی ہوتا ہے اور دوران تشدد ذات ہی کو بنیاد بناکر بُرا بھلا کہا جاتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ تشدد کے بعد بھی عیسائیوںکو بخشا نہیں جاتا بلکہ انہیں دیگر مصائب بھی جھیلنے پڑتے ہیں جیسے کچھ لوگو ں کے روزگار کا چھن جانا، سماجی بائیکاٹ، مکانات کا نقصان اور ایسے ہی دیگر مسائل جن کا تصور مشکل نہیں کہ ان کے ساتھ اور کیا کچھ ہوتا ہوگا۔ پی یو سی ایل کی رپورٹ کہتی ہے کہ ایسے واقعات کی سرپرستی بڑے ہندوتوا گروپس کی جانب سے ہوتی ہے جبکہ بی جے پی کے قانون ساز بھی بعض اوقات ان کی پشت پناہی کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مظلوموں کے ساتھ صرف تشدد نہیںہوتا، اس کے بعد بھی بہت کچھ ہوتا ہے جو جاری رہتا ہے۔ n