EPAPER
Updated: August 11, 2021, 8:09 AM IST | New Delhi
اپوزیشن نےاو بی سی سے تعلق رکھنے والی برادریوں کی فہرست بنانے کا اختیار ریاستوں کو دینے والے ترمیمی بل کا خیرمقدم کیا لیکن یہ بھی کہا کہ اس بل کا فائدہ اُسی وقت ملے گا جب ریزرویشن کی ۵۰؍ فیصد کی حد میں اضافہ ہوگا۔ ٹی ایم سی نے وفاقی ڈھانچے پر بھی بحث کی مانگ کی، کہا: اس سے ریاستوں کو اُن کا اختیار ملے گا
اوبی سی ریزرویشن معاملے کو ریاستوں پر ڈال کرخود کو بری الذمہ کرنےو الی مرکزی حکومت کو اپوزیشن کے سخت احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ مودی حکومت جس بل کے سہارے اپوزیشن کی حکومت والی ریاستوں کو گھیرنا چاہتی تھی، اب وہی بل اس کے گلے کا طوق بننے جارہا ہے۔
اپوزیشن نے دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) برادریوں کی فہرست بنانے کا اختیار ریاستوں کو دینے سے متعلق آئین کے ۱۲۷؍ ویں ترمیمی بل کا خیرمقدم کرتے ہوئے الزام لگایا کہ عوام کے دباؤ میں اسے دو سال پہلے کی گئی غلطیوں کو سدھارنے کیلئے مجبوراً اس بل کو لانا پڑا ہے۔ اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ سرکار ریزرویشن کی ۵۰؍ فیصدکی حد کو ہٹانے کیلئے ایک بل لائے۔
دوپہر بارہ بجے ایوان کی کارروائی شروع ہونے پر اسپیکر اوم برلا نے ضروری دستاویز ایوان کی میز پر رکھوانے کے بعد آئینی (۱۲۷؍ویں ترمیم) بل۲۰۲۱ء پر بحث شروع کرنے کا اعلان کیا، جس کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کے اراکین ، جو احتجاج کر رہے تھے اور ایوان کے وسط میں نعرے بازی کر رہے تھے ، اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے تاکہ وہ بحث میں حصہ لے سکیں۔ اگرچہ کانگریس اور ترنمول کانگریس نے مباحثے میں پیگاسس مسئلے پر بحث کرنے کی تجویز پیش کی لیکن اسپیکر نے اسے منظور نہیں کیا۔
سماجی انصاف و اختیارات کے وزیر ڈاکٹر ویریندر کمار نے ایوان میں بحث کیلئے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کے ذریعے یہ واضح کیا جانا ہے کہ او بی سی برادریوں کی فہرست ریاستوں کو معاشرتی ضرورت کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق ملے گا۔ ریاستیں اس سے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں داخلے کے عمل میں مقامی فہرستوں میں درج او بی سی برادریوں کو فائدہ ہوگا۔ اس ترمیم میں ریاستی او بی سی کمیشن کے ساتھ مشاورت کی شرط بھی ختم کردی گئی ہے۔ اس سے او بی سی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے روزگار اور تعلیم کے حالات بہتر ہوں گے۔
بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ہم آدیواسیوں ، دلتوں اور او بی سی کے حق میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ راجیو گاندھی نے میونسپلٹی ایکٹ اور پنچایت ایکٹ میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست ذات و قبائل کو ریزرویشن دیا تھا۔ انہوںنے کہا کہ کانگریس اس بل کی حمایت کرتی ہےلیکن حکومت کو سوچنا چاہئے کہ یہ بل کیوں لانا پڑا؟ ایسا اسلئے ہوا کیونکہ۲۰۱۸ءمیں آئین کی۱۰۲؍ ویں ترمیم کے وقت اپوزیشن نے خبردار کیا تھا کہ ریاستوں کی او بی سی برادریوں کے انتخاب کے حق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے لیکن حکومت نے ہماری باتوں پر توجہ نہیں دی تھی۔ اگر ہماری بات اُسی وقت سن لی جاتی تو یہ بل لانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔انہوں نے کہا کہ حکومت اپنی اکثریت پر گھمنڈ کرتی ہے اور کسی کی پروا نہیں کرتی ہے لیکن حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ عوام کو کسی کی اکثریت سے لینا دینا نہیں ہوتا ہے۔ وہ احتساب پر آئے گی تو برابر حساب لے گی۔انہوں نے کہا کہ پنجاب ، اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے انتخابات نے مودی سرکار کو یہ بل لانے پر مجبور کیا۔انہوں نے کہا کہ ہم اس بل کی حمایت کرتے ہیں لیکن حکومت کو ۱۹۹۲ء کے اندرا ساہنی کیس میں۵۰؍ فیصد ریزرویشن کی حد کو ختم کرنے کے بعد یہ بل لانا چا ہئے۔ تمل ناڈو میں جس طرح ۶۹؍ فیصد ریزرویشن ہے ، اسی طرح پورے ملک میں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ریزرویشن کی حد بڑھانے کیلئے بھی حکومت ایک بل لائے۔
بی جے پی کی جانب سے بحث کا آغاز کرتے ہوئےرکن پارلیمان سنگھ مترا موریہ نے کہا کہ وہ او بی سی کو بااختیار بنانے کیلئے اس بل کی حمایت کرنے پر کانگریس لیڈر کا شکریہ ادا کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم مودی کی پہل کی وجہ سے طبی تعلیم میں او بی سی کو ریزرویشن کا حق ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مودی حکومت میں۲۷؍ او بی سی وزرا ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہماری حکومت غریب، پسماندہ ، انتہائی پسماندہ اور مظلوموں کے حق میں کام کرتی ہے۔
’ڈی ایم کے‘ کے ٹی آر بالو نے اس بل کو لانے کیلئے حکمراں جماعت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ بل عوامی دباؤ کا نتیجہ ہے لیکن اس سے او بی سی برادریوں کی تیزی سے ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔ترنمول کانگریس کے سدیپ بندوپادھیائے نے کہا کہ ان کی پارٹی آئین کی۱۲۷؍ ویں ترمیم کے بل کی حمایت کرتی ہے لیکن حکومت کو پیگاسس سے بھاگنا نہیں چاہئے۔ جب اس بل پر آج بیٹھ کر بات کی جا سکتی ہے تو پھر پیگاسس پر کل بحث ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ایوانوں میں ۳۰؍ بل محض۱۰؍ منٹ میں پاس ہو رہے ہیں۔ اس پر پریذائیڈنگ آفیسر رما دیوی نے انہیں ٹوکا کہ صرف بل کے موضوع پر بات کی جائے۔انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک دن وفاقی ڈھانچے پر بھی ایوان میں بحث ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی ۱۰۲؍ ویں ترمیم کی وجہ سے ریاستوں کے حقوق اور ریاستوں کے او بی سی کمیشن ایک طرح سے کالعدم ہو چکے ہیں۔ کئی ریاستوں کے احتجاج کے بعد مرکزی حکومت کو یہ بل لانا پڑا۔