EPAPER
Updated: August 19, 2021, 8:24 AM IST | London
بورس جانسن کی یہ دلیل کسی کے گلے نہیں اتری کہ ’’ ہم نے افغانستان میں اپنا مشن پورا کر لیا ہے‘‘ اپوزیشن نے وزیراعظم پر طنز کیا کہ’’ اب آپ عالمی برادری کی قیادت سنبھالیں تاکہ افغانستان کے معاملے کو حل کیا جا سکے۔‘‘ نوجوان رکن پارلیمان نے جو بائیڈن کی افغان فوج پر تنقید کو شرمناک بتایا
امریکہ کے بعد اب برطانیہ میں بھی حکومت کو ان سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی فوج کو ہونے والی شرمناک شکست کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ بدھ کو لند ن میں برطانوی پارلیمنٹ کے ہائوس آف کامنس یعنی ایوان زیریں میں ایک ہنگامہ اجلاس طلب کیا گیا۔ یاد رہے کہ اس وقت برطانوی اراکین پارلیمنٹ چھٹی پر تھے لیکن ناگزیر حالات کو دیکھتے ہوئے یہ اجلاس بلانا پڑا جس میں وزیراعظم بورس جانسن کو اراکین کے سوالوںکے جواب دیتے دیتے پسینے چھوٹ گئے۔
برطانیہ نے اپنا مشن پورا کرلیا؟
بورس جانسن نے بھی ایوان کے سامنے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ہی کی طرح کچھ ایسے دعوے کئے جو کسی کے گلے نہیں اترے۔ جانسن نے کہا ‘‘ برطانیہ افغانستان میں اپنے مشن میں کامیاب رہا۔ دراصل ان سے سوال پوچھا گیا تھا کہ ’’ ۲۰؍ سال تک ایک تنظیم سے جنگ کرنے کے بعد آج برطانیہ (جو نیٹو فوج کا حصہ تھا) اس ملک کو اسی تنظیم کے حوالے کرکے کیسے آ گیا؟ حالانکہ اس نے اس تنظیم (طالبان) سے افغانستان کو نجات دلانے کی بات کہی تھی۔ اسی کا جواب دیتے ہوئے بورس جانسن نے کہا ’’ برطانیہ نے افغانستان میں مداخلت کرکے کئی لوگوں کی جانیں بچائی ہیں۔ اس لئے ہمارا مشن کامیاب رہا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں بورس جانسن نے تقریباً اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ’’اب افغانستان میں مزید فوج بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی اور ملک ایسا کرنے والا ہے تو یہ محض خود فریبی ہے۔‘‘ اس دوران اپوزیشن لیڈر کیئر اسٹارمر نے حکومت پر جم کر حملے کئے۔ انہوں نے بورس جانسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’ افغانستان کی موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے اب آپ خود عالمی برادری کی قیادت کریں۔‘‘ یاد رہے کہ ۲۰؍ سال پہلے جب افغانستان پر حملہ کیا گیا تھا تو امریکہ کے علاوہ برطانیہ ہی اس میں پیش پیش تھا۔ اس وقت امریکی صدر جارج بش کے علاوہ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر ہی دنیا کو مخاطب کیا کرتے تھے اور طالبان کو جلد ہی ختم کر دینے کا دعویٰ کیا کرتے تھے۔ اسٹارمر کا فقرہ غالباً اسی جانب ایک طنز تھا۔
کیا یہ ساری قربانیاں اسی لئے تھیں؟
لیبر پارٹی کے رکن ڈین جاروِیس نے کہا کہ عالمی قیادت کی تباہ کن ناکامی اور طالبان کی جارحیت کے سبب افغان عوام سے ایک مختلف زندگی کی امیدیں چھین لی ہیں جو ہم نے انہیں دلائی تھیں۔ اُنھوں نے کہا کہ’ ’بہادر برطانوی مرد و خواتین فوجیوں نے ان ۲۰؍سال میں زبردست ہمت اور پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا مگر حالیہ پیش رفت سے مجھے دھچکا لگا ہے۔میں سوچ رہا ہوں کہ کیا یہ سب کوششیں اور قربانیاں فائدہ مند تھیں بھی یا نہیں؟‘‘
جو بائیڈن پر جذباتی تنقید
اس دوران صرف بورس جانسن ہی سے سوالات نہیں کئے گئے بلکہ امریکی صدر جو بائیڈن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ٹام ٹوگنڈیٹ نامی رکن نے جو بائیڈن کے اس بیان پر انتہائی جذباتی انداز میں تنقید کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جب افغان فوج ہی طالبان سے لڑنا نہیں چاہتی تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ٹام نے کہا’’ بائیڈن کا بیان شرمناک ہے۔ انہوں نے افغان فوجیوں کی توہین کی ہے جو برسوں تک ان کے ساتھ مل کر طالبان کے ساتھ لڑتے رہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ اس بیان سے پرانے زخم تازہ ہو گئے۔ واضح رہے کہ ٹام ٹوگنڈیٹ پہلے فوجی ہوا کرتے تھے اور وہ افغانستان کی جنگ میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔