EPAPER
Updated: February 10, 2022, 9:51 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai
حجاب پر تنازع ۲۸؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو اس وقت شروع ہوا جب اڈپی کے ایک پِری یونیورسٹی گورنمنٹ کالج میں یونیفارم پہنے ہوئیں ۶؍ مسلم طالبات کو کیمپس سے باہر اس لئے جانے کو کہا گیا کہ وہ حجاب پہنے ہوئے تھیں۔ طالبات نے وجہ جاننا چاہی تو بتایا گیا کہ حجاب یونیفارم کا حصہ نہیں۔
ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک مہینے سے زائد عرصے سے کرناٹک کے اڈپی میں جو ہوا اورا س کی دیکھا دیکھی جو دوسرے ضلعوں میں ہورہا ہے اس کے لئے کسے قصور وار ٹھہرایاجائے۔ ریاستی حکومت کو ،کالج انتظامیہ کویا اس ذہنیت کو جس کی تسکین ہر معاملے کو ہندو مسلم رنگ دینے سے ہوتی ہے۔ حجاب کا مسئلہ ایسا نہیں تھا جسے گفت وشنید کے ذریعے حل نہ کیاجاسکتا۔ لیکن چونکہ نیّت اسے ایشو بناکر ہندو۔ مسلم رنگ دینا اور سیاسی روٹیاں سینکنا تھا اس لئے چنگاری لگاکر چھوڑ دیاگیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ حجاب پر تنازع ۲۸؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو اس وقت شروع ہوا جب اڈپی کے ایک پِری یونیورسٹی گورنمنٹ کالج میں یونیفارم پہنے ہوئیں ۶؍ مسلم طالبات کو کیمپس سے باہر اس لئے جانے کو کہا گیا کہ وہ حجاب پہنے ہوئے تھیں۔ طالبات نے وجہ جاننا چاہی تو بتایا گیا کہ حجاب یونیفارم کا حصہ نہیں۔ طالبات نے بتایا کہ کالج میں داخلے کے بعد وہ گزشتہ تین سال سے حجاب کے ساتھ کالج آرہی ہیں، اس وقت کسی نے اعتراض نہیں کیا تو اچانک وہ انتظامیہ کی نظروں میں کیوں کھٹکنے لگا۔ جواب نہ ملنے پر طالبات نے کہا کہ حجاب ان کے مذہب اور تہذیب وثقافت کا حصہ ہے اورآئین کا آرٹیکل ۲۵(۱) ہرشہری کو آزادیٔ ضمیر کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کرنے یا دوسرا مذہب اختیار کرنے اوراس کی اشاعت وتبلیغ کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ ہرشہری کا بنیادی حق ہے اس لئے ہم حجاب سے دستبردار ہوں گے نہ تعلیم سے۔طالبات کے کڑے تیور اور انتظامیہ کے سخت رویّے سے معاملہ طول کھینچ گیا۔ کالج کا مؤقف تھا کہ ڈریس کوڈ کے خلاف ہر ایسا لباس یا پہناوا جس کی ضرب مساوات یا یکسانیت پر پڑتی ہو آرٹیکل ۲۵؍ کے دائرے میں نہیں آتا۔ کالج کے پرنسپل نے کہا کہ ڈسپلن قائم رکھنے کیلئے یونیفارم کی پابندی لازمی ہے۔ اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کی اجازت نہیں ۔ ریاستی بی جے پی چیف نے شیخی بگھاری کہ کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت ہے جس میں حجاب کی کوئی گنجائش نہیں۔ تعلیمی ادارے سرسوتی مندر کی طرح ہیں جہاں تعلیم وتعلّم کے لئے کسی دوسرے دھرم کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوںنے یہ کہہ کر اپنے ارادے صاف کردیئے کہ حکومت ان سرسوتی مندروں کو طالبانی گڑھ بننے کی اجازت نہیں دے گی لیکن وہ بھول گئے کہ غیر ہندوؤں پر ہندوؤں کی مذہبی وتہذیبی اقدار تھوپ کر وہ نادانستہ طور پر طالبان کی ہی پیروی کررہے تھے۔ تعجب اس پر ہے کہ سیاسی مفاد کے لئے انہوںنے علم وہنر کی دیوی سرسوتی کوبھی نہیں بخشا اور تعلیمی اداروں میں جنہیں وہ سرسوتی مندر کہتے ہیں، فرقہ واریت کا زہر گھول دیا۔ ان بیانات کا ہندوتوا سے متاثر طلبہ پر جو اثر ہوا اس کا اظہار انہوںنے زعفرانی شال پہن کر کالج کیمپس میں جانے کے ذریعے کی جسے پولیس نے ناکام بنادیا۔ خبر تویہ بھی ہے کہ ریاستی وزیر داخلہ نے پولیس کو اس بات کی تفتیش کا حکم دیا ہے کہ متاثرہ طالبات کو کہیں ملک دشمن عناصر کی پشت پناہی تو حاصل نہیں۔ بہر حال معاملہ ہرگزرتے دن کے ساتھ بگڑتا گیا اور دوسرے علاقے اور ضلعے بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ حیرت کی بات ہیکہ یہ سب گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں ہورہا تھا جو ٹیکس دہندگان کی رقم سے چلتے ہیں جبکہ وہ پرائیویٹ ادارے جنہیں مندر چلاتے ہیں، وہاں ایسا کوئی تنازع پیدا نہیں ہوا۔ حالات کے بگاڑ کے لئے اپوزیشن پارٹیوں نے ریاستی حکومت پر الزام لگایا۔ گودی میڈیا نے حسب توقع آگ بھڑکانے کا کام کیا جس سے کئی مقامات پر فریقین آمنے سامنے ہوگئے۔
معاملہ کا کوئی حل نکلتا نہ دیکھ کر کچھ متاثرہ طالبات نے انصاف کے حصول کے لئے کرناٹک ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ منگل کو جب عدالت میں سماعت ہورہی تھی تو حالات قابو سے باہر ہوچکے تھے جس کے لئے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا، فاصل جج اور وزیراعلیٰ کو لوگوں سے امن وامان قائم کرنے کی اپیل کرنا پڑی اور تین دن کے لئے اسکول اور کالج بند کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ سماعت مکمل نہ ہونے پر فاضل جج کو کارروائی دوسرے دن کے لئے ملتوی کرنا پڑی۔ اگر کوئی اڑچن نہیں آتی ہے تو آپ کو فیصلے کی خبر نیوز چینلوں کے ذریعے کل ہی مل گئی ہوگی، منگل کو جج صاحب نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ فیصلہ جذبات کی بناء پر نہیں، آئین کی بنیادپر کریں گے۔ ہماری پریشانی یہ ہے کہ اس طرح کے دعوے پر ہمارے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور بابری مسجد اراضی کیس میں سپریم کورٹ کا وہ اعلان یادآتا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ فیصلہ آستھا کی بنیادپر نہیں، ثبوت وشواہد کی بنیاد پر ہوگا۔ اس کے بعد کیا ہوا ، یہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ فیصلہ آستھا اور عقیدے کی بنیادپر کیا گیا اور مسلم فریقین کی طرف سے پیش کئے گئے سارے ثبوت وشواہد کو تسلیم کرنے کے باوجود اس سوال کا جواب نہ ملنے پر کہ کیا بابری مسجد میں سولہویں صدی سے ۱۸۵۷ء تک نماز پڑھی گئی تھی، فیصلہ ہندوؤں کے حق میں کردیا گیا۔ اسی طرح پارلیمنٹ پر حملے کے ملزم افضل گرو کو پھانسی کی سزا سماج کے اجتماعی ضمیر کی تسکین کے لئے دی گئی۔
حجاب مسئلہ پر عدالتی فیصلہ کیا ہوگا یہ تو معلوم ہونے کے بعدہی پتہ چلے گا لیکن اس سے پہلے مختلف موقعوں پر جو فیصلے دیئے گئے ان میں تضاد پایاجاتا ہے۔ ۲۰۱۶ء کے ایک کیس میں کیرالا ہائی کورٹ کے جسٹس پی بی سریش کمار نے حجاب کو اسلام کا لازمی جزقراردیاتھا۔ لیکن ۲۰۱۸ء میں جب ۱۲؍ اور۸؍ سال کی مسلم بچیوں کے والد نے اُسی عدالت میں اپنی بچیوں کے لئے اسکول میں لمبی آستین اور حجاب پہننے کی اجازت طلب کی تو جسٹس محمد مشتاق نے یہ کہہ کر اسے خارج کردیا کہ فرد واحد کے حق کو کسی تعلیمی ادارے کے اوصول وضوابط پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ اڈپی گورنمنٹ کالج کے انتظامیہ سے پہلی غلطی یہ ہوئی کہ اس نے ڈریس کوڈ یا یونیفارم کا اطلاق پیشگی اطلاع دیئے بغیر اچانک کردیا۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ طالبات کو کیمپس کے باہر کرکے مہینہ بھر سے زائد مدت کے لئے انہیں تعلیم سے محروم رکھا جو ان بچیوں کا آئینی اور بنیادی حق تھا۔ ریاستی حکومت سے غلطی یہ ہوئی کہ اس نے سیاسی فائدے کے لئے معاملے کو سلجھانے کے بجائے الجھا دیا۔ آخری بات ۔ مسلمانوں میں بھی حجاب کو لے کر دو طبقے ہیں ایک وہ جو حجاب پر تعلیم کو فوقیت دیتا ہے دوسرا وہ جو مذہبی تشخص کو ترجیح دیتا ہے۔n