Inquilab Logo Happiest Places to Work

غلط بیانی سے تاریخی حقائق نہیں بدلتے

Updated: November 18, 2021, 1:37 PM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

کنگنا رناؤت نے اپنے بیان میں ۱۹۴۷ء میں ملی آزادی کو بھیک قرار دیا۔ اور ۲۰۱۴ء میں مودی کے اقتدار میں آنے کو اصل آزادی سے تعبیرکیا۔ جب اس بیان کی چوطرفہ مذمت ہوئی تو بی جے پی نے اسے کنگنا کا ذاتی بیان کہہ کر اپنا پلّہ جھاڑا لیکن کنگنا کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے بیان پر آج بھی قائم ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

گزشتہ  سا ت  برسوں میں مودی نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے  ان میں  اپنے اور حکومت کے دادِ عیش کے لئے نت نئے ٹیکسوں کے ذریعے سرکاری خزانہ بھرنا، الکٹورل بانڈ  اور FCRA  کے ذریعے ملک وبیرون ملک سے پارٹی کیلئے فنڈ اکٹھا کرنا اور غیر معمولی حالات سے نمٹنے کے لئے پی ایم کیئرس  جیسا فنڈ تشکیل دینا شامل ہے۔ ان دونوں فنڈ میں کتنی خطیر رقم  جمع ہے اس کا علم گنتی کے چند ذمہ داروں کے علاوہ کسی کو نہیں کیونکہ ان کا لیکھا جوکھا آرٹی آئی کی رسائی سے باہر ہے سیاسی مفاد کے لئے مودی کی طرف سے سرکاری ، آئینی اور عوامی اداروں کا استحصال او ر مذہب کا استعمال ڈھکا چھپا نہیں ۔ اِن سات برسوں میں ملک کی دوبڑی اکثریتوں کے درمیان نفرت کی خلیج کو جو وسعت دی گئی  اُسے پاٹنا کارے دارد ثابت ہوگا ۔ وہ  لوگ جنہوں نے تقسیم وطن  کے پرآشوب دَور کو دیکھا یا اس کے بارے میں سُنا  ہے وہ موجودہ حالات  کو اُس کا ٹریلر بتاتے ہیں۔ مودی نے ۲۰۱۴ء کا الیکشن ڈیولپمنٹ  اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کا جھانسہ دے کر جیتا۔ ۲۰۱۹ء میں نیشنل سیکوریٹی کی آڑ میں  بالا کوٹ سرجیکل اسٹرائک ، بی جے پی کے لئے گزشتہ کے مقابلے  بڑی کامیابی کا سبب بنی جس نے مودی کو بڑے پیمانے پر ہندو توا ایجنڈے کو نافذ کرنے کا موقع  فراہم کیا۔  رام مندر ، آرٹیکل ۳۷۰؍ ، طلاق ثلاثہ اور شہریت قانون جیسے اقدامات اسی ذیل میں آتے ہیں جن کا مقصد مسلما نوں کو ہراساں کرنا ہے۔ آج بھی  پارٹی کا آئی ٹی سیل ، وہاٹس ایپ یونیورسٹی اور Cut & Paste Factory    ۲۴؍ گھنٹے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی شغل میں لگی ہیں اور چونکہ اگلے سال اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں اور یوپی کا الیکشن ’کرو یا مرو‘ کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے بعید نہیں کہ  اندھ  بھکتوں کا سوشل میڈیا   اوور ٹائم کرنے پر اُتر آئے۔ یوپی سے مودی  کا وقار اور یوگی کی بقاء وابستہ ہے اس لئے مودی ، شاہ اور یوگی بی جے پی کو جتانے اورالیکشن کو ہندو مسلم رنگ دینے میں پوری  طاقت جھونک دیں گے۔ ان حالات میں ایک مضبوط ومعتبر اپوزیشن کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ بدقسمتی سے یہ کام ناممکن نہ سہی، مشکل ضرور ہے۔کیونکہ اپوزیشن پارٹیاں مودی  اور بی جے پی  کو ہٹانے پر متفق توہوتی   ہیں، متحد نہیں۔   انتخابی  جائزے بی جے پی اور ایس پی کے درمیان کا نٹے کی ٹکر بتا ر ہے ہیں جو بڑی حد تک درست لگتی ہے۔ بی ایس پی اورکانگریس کی ساکھ اکھڑ چکی ہے۔ پرینکا گاندھی نے یوپی کی کمان سنبھالی ہے۔ لیکن کیا وہ اس کے تن مردہ میں جان ڈال سکیں گی ، کہا نہیں جاسکتا۔ خواتین کے لئے الیکشن میں ۴۰؍ فیصد ریزرویشن کا اعلان کرکے ممکن ہے کانگریس کی سیٹوں میں کچھ اضافہ ہو ورنہ اس کا  احیاءمشکل معلوم ہوتا ہے۔   داخلی انتشار اور کمزور قیادت نے اسے کہیں کا  نہیں رکھا ۔ اس دوران ایس پی اور کانگریس سے دوایسی باتیں ہوئیں جنہوں نے بی جے پی کو بیٹھے بٹھائے ایک  پسندیدہ ہتھیار تھما  دیا۔ اکھلیش یادو کی طرف سے آزادی کی جدوجہد میں مہاتما گاندھی کے ساتھ جناح کا نام شامل کرنا اور کانگریس کے سینئر لیڈر سلمان خورشید کا اپنی کتاب  Sun  rise  in Ayodha  میں بھگوا تنظیموں  کا موازنہ  داعش اور بوکو حرام سے کرنا  ، الیکشن کو ہندو۔ مسلم رنگ دینے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ کارکردگی کے نام پر مودی ۔ یوگی کے پاس آدھے ادھورے پروجیکٹوں اور بلند بانگ دعووں کے علاوہ کچھ نہیں،البتہ یوگی کی طرف سے شہروں اور اسٹیشنوں کا نام بدلنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ چنانچہ’ حبیب گنج اسٹیشن‘  جس رانی کملا پتی کے نام پر رکھا گیا اُس کا محل کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے اگر  نام کرن  کی  تقریب میں  ہونے والے خرچ کو  محل کی مرمت پر خرچ کیاجاتا تو وہ صحیح خراج عقیدت ہوتا ۔ خبر یہ بھی ہے کہ اعظم گڑھ کو آریم گڑھ کا نام دیاجائے گا۔
 مودی اور بی جے پی لیڈروں کی تاریخ دانی کے ہم کبھی قائل نہیں رہے البتہ ان کی طرف سے جس طرح کے انکشافات ہوئے ان سے ہماری معلومات میں تو کوئی اضافہ نہیںہوا  لیکن  چودہ طبق ضرور روشن ہوگئے۔ مودی کے دَور میں تاریخی واقعات  کو غلط بیانی کے ذریعے جس طرح توڑ مرو ڑ کر پیش کیاجاتا ہے اس میں لاعلمی سے زیادہ بدنیتی کا دخل   ہے۔ ایسا کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ اس سے تاریخی حقائق کو بدلا نہیں جاسکتا۔ بدقسمتی سے اس طرح کی غلط بیانیاں قومی کھیل  بنتی جارہی ہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر کوئی تاریخ کا طالب علم نہیں ہوسکتا نہ ہی سیاستدانوں سے اس کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن اگر آئینی منصب پر فائز وزیراعظم یا وزیراعلیٰ جن  کے پاس سائنس سے لے کر تاریخ اور امور خارجہ سے لے کر قومی سیاست  کا حال احوال  جاننےکا Support System  حاصل ہو، انہیں کسی بھی موضوع  پر منہ کھولنے سے پہلے ، جگ ہنسائی سے بچنے کے لئے سسٹم کی مدد لینا لازمی ہوجاتا ہے ۔ ہمارے سیاستداں ایسا نہیں کرتے ہیں۔ مودی کو ہی لیجئے۔ جنہوں نے کہا تھا کہ گنیش مورتی   سے پتہ چلتا ہے کہ ویدک دَور میں  پلاسٹک سرجری کا رواج شروع ہو چکا تھا۔  زیادہ دن نہیں گزرے جب انہوںنے دعویٰ کیا کہ بابا گورَک ناتھ ، گرونانک اور کبیر ساتھ  مل کر ’سنت سَنگ‘ کیا کرتے تھے۔ ہم واضح کر دیں کہ ان  تینوں کے دَور میں صدیوں کا  فاصلہ تھا۔ ایسا ہی  دعویٰ یوگی نے کیا جب انہوںنے انکشاف کیا کہ چندر گپت  موریہ نے سکندر کو شکست دی تھی لیکن مورخین نے اس کے بجائے سکندر کو ’ اعظم ‘کا خطاب دیا۔ تاریخ کا ایک  ا دنیٰ  طالب علم بھی جانتا ہے کہ سکندر کی جنگ  راجہ پور س سے ہوئی تھی چندر گپت  موریہ سے نہیں ۔  اسی طرح بی جے پی کے  ایک سابق ریاستی نے دعویٰ کیا کہ رانا پرتاپ کوپانی پت کی جنگ میں فتح حاصل ہوئی تھی  ، شکست نہیں۔  آج نوبت اینجا رسید کہ آزادی کا پاٹھ ہمیں ایک ایسی فلم ایکٹریس سے سیکھنا پڑے گا جو مودی کی اندھ بھکت  ہیں اور متنازع  بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں رہتی ہیں۔ حال ہی میں اسے پدم شری اعزاز سے نوازا گیا۔کنگنا رناؤت نے اپنے بیان میں ۱۹۴۷ء میں ملی آزادی کو بھیک قرار دیا۔ اور ۲۰۱۴ء میں مودی کے اقتدار میں آنے کو اصل آزادی سے تعبیرکیا۔  جب اس بیان کی چوطرفہ مذمت ہوئی تو بی جے پی نے اسے کنگنا کا ذاتی بیان کہہ کر اپنا پلّہ جھاڑا لیکن کنگنا کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ  وہ  اپنے بیان پر آج بھی قائم ہے۔ مودی  اور حکومت کی طرف سے کوئی تبصرہ نہ آنے پر کیا یہ سمجھا جائے کہ وہ اس سے متفق ہیں؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK