EPAPER
Updated: November 16, 2021, 1:26 PM IST
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ وہ ’’ایسے بیانات کو نظر انداز کرنا پسند کرتے ہیں۔‘‘ موضوع تھا کنگنا رناوت کا وہ بیان جس میں انہوں نے ۱۹۴۷ء میں حاصل شدہ آزادی کو ’بھیک‘ قرار دیا۔
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ وہ ’’ایسے بیانات کو نظر انداز کرنا پسند کرتے ہیں۔‘‘ موضوع تھا کنگنا رناوت کا وہ بیان جس میں انہوں نے ۱۹۴۷ء میں حاصل شدہ آزادی کو ’بھیک‘ قرار دیا۔ یقیناً ایسے بیانات کو اہمیت نہیں دی جانی چاہئے مگر کیا یہ جانتے ہوئے غیر اہم سمجھنے کی غلطی کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک اداکارہ کا ذاتی تاثر نہیں ہے بلکہ جدوجہد آزادی کے تعلق سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوششوں اور اس مقصد سے دیئے گئے بیانات کے طویل سلسلے کی تازہ کڑی معلوم ہوتا ہو؟ کون نہیں جانتا کہ ماضی میں جدوجہد آزادی کے بعض حقائق کو جھٹلانے کی کوشش کی گئی، اس میں کامیابی نہیں ملی تو بعض چیزوں کو متعلقہ تاریخ میں ٹھونسنے کا جتن کیا گیا اور جب اس میں بھی کامیابی نہیں ملی تو اب اس تاریخ ہی کو مشکوک بنانے اور اس کی غلط تشریح کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ کنگنا کے مذکورہ بیان اور بی جے پی یوا مورچہ کی لیڈر رُچی پاٹھک کے بیان میں، کہ ’’ہندوستان کو جو آزادی ملی وہ ۹۹؍ سال کی لیز پر ملی ہے‘‘، کیا مشترک ہے؟ ظاہر ہے کہ دونوں ردّی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل ہیں مگر جب ایسے بیانات آئے دن دیئے جارہے ہوں تو یہ محض اتفاق یا کسی فرد کی ذاتی رائے نہیں رہ جاتے۔ اس کے پس پشت کیا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اس کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کیونکہ جھوٹ آخر جھوٹ ہے جو سچ کے آگے ٹھہر نہیں سکتا مگر دُنیا میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو سچ تک پہنچنے کی زحمت نہیں اُٹھاتے۔ اُن کیلئے ’’دستیاب مواد‘‘ ہی کافی ہوتا ہے خواہ وہ پروپیگنڈہ کا حصہ اور سراسر جھوٹ پر مبنی ہو۔ ان سادہ لوح لوگوں کو یہ محسوس تک نہیں ہوتا کہ وہ گمراہ کئے جارہے ہیں۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کے ذریعہ بڑی آسانی سے یہ کام کیا جارہا ہے۔ مسئلہ کتابیں کھنگالنے والوں اور تاریخی دستاویزات تک پہنچنے والوں کا نہیں بلکہ پروپیگنڈہ سے اثر لینے والوں کا ہے جو بہت ممکن ہے کہ کنگنا کے بیان سے ’’بھیک‘‘ اور رُچی پاٹھک کے بیان سے ’’لیز‘‘ اخذ کرلیں۔
قوم کے کچھ یا زیادہ لوگ اس طرح گمراہ نہ ہوں اس کیلئے ہر اُس چیز کا ، جو خلافِ واقعہ ہو، حقائق کے منافی ہو، مصدقہ تاریخ کو جھٹلاتی ہو اور بیرونی ملکوں میں ہمارے عوام کے بارے میں غلط تاثر قائم کرتی ہو (کہ یہ لوگ بآسانی گمراہ ہوجاتے ہیں)، پوری قوت کے ساتھ مسترد کیا جانا ہی واحد حل ہے۔ کل تک آپ دیکھ رہے تھے کہ پنڈت نہرو کے خلاف طومار باندھا جارہا تھا۔ نظریاتی اختلاف کے اظہار کا حق تو سب کو ہے مگر ایسی دلیلوں، جو تاریخ سے ثابت نہ ہوں، کا مقصد لوگوں کو اُلجھانا اور اُن کے ذہنوں میں شک و شبہ پیدا کرنا ہی ہوتا ہے۔ پختہ دیوار گوارا نہ ہو اور اس کی جگہ نئی دیوار تعمیر کرنا ہو تو کیا کیا جاتا ہے؟ پختہ دیوار کو دھیرے دھیرے کمزور کیا جاتا ہے۔ تاریخ کو کمزور کرنا ہو تو شک و شبہ پیدا کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک طبقہ گوڈسے کا گن گان کرتا ہے۔ اس کا بھی مقصد یہی ہے کہ شک و شبہ پیدا کیا جائے اور پختہ دیوار کو کمزور کیا جائے۔ ایسے ہر پروپیگنڈہ کا تاریخی حقائق سے جواب دیا جانا چاہئے جو دانشور طبقے کی ذمہ داری ہے مگر حکومت وقت کا بھی کچھ فرض ہے۔ وہ یہ کہ باقاعدہ بیان جاری کرکے ایسے عناصر کو متنبہ کرے اور اس طرح اپنا موقف واضح کرے۔ جب تک جھوٹ بولنے اور شر پھیلانے والوں کی گوشمالی نہیں ہوگی، یہ بیان بازیاں رُکیں گی نہیں۔