Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹیم کی کپتانی میں کروں یا وراٹ کوہلی ،جیتنا ہندوستان کو چاہئے

Updated: January 29, 2021, 1:29 PM IST | Abhishek Triphati | Mumbai

آسٹریلیا کو اسی کی سرزمین پر شکست دے کر تاریخ رقم کرنے والی ٹیم کے کپتان اجنکیا رہانے نے انقلاب کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ انہوںنے کبھی کپتانی کے بارے میں سوچا نہیں

Ajinkya Rahane. Picture :INN
اجنکیا رہانے ۔ تصویر:آئی این این

 ہندوستانی کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کو اسی کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز میں شکست دے کر تاریخ رقم کر دی ہے۔ اس ٹیسٹ سیریز میں جیت کا  سہر ا وراٹ کوہلی کی عدم موجودگی میں ٹیم کی کپتانی کرنے والے اجنکیا رہانے کے سر باندھا گیا۔اب تک۵؍ٹیسٹ میچوں میں کپتانی کے فرائض انجام دیتے ہوئے ۴؍ میں کامیابی حاصل کرنے والے اجنکیا رہانے اس بحث میںپڑنا نہیں چاہتے کہ ٹیم کی کپتانی کس کو دی جانی چاہئے۔ان کا کہنا ہے کہ کپتانی وہ کریں یا وراٹ کوہلی جیتنا ہندوستانی کرکٹ ٹیم کوچاہئے۔انقلاب نے اجنکیا رہانے سے بات چیت کی جو اس طرح ہے
آسٹریلیا کے خلاف جیتنا کیا اہمیت رکھتا ہے؟
 بہت اہمیت رکھتا ہے۔کوئی بھی ٹیسٹ یا سیریز جیتنا ہر کھلاڑی کےلئے بڑی بات ہوتی ہے۔ایک ٹیم کے طور پر ہم ۳۶؍رنوں پر آل آؤٹ ہوگئے تھے۔ان حالات کے باوجود ہم نے آسٹریلیا کیخلاف انہی کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز جیتی جو بہت بڑی بات ہے۔ یہ صرف میرے اکیلے کی جیت نہیں تھی بلکہ پوری ٹیم کی کامیابی تھی۔میں نے کبھی اپنے لئے نہیں کھیلا۔میرے لئے میری ٹیم اولین ترجیح رہتی ہے۔
جب آپ برسبین ٹیسٹ کیلئے ٹیم منتخب کر رہے تھے تو کوئی پریشانی محسوس ہوئی؟
 کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ہمارے پاس جو کھلاڑی فٹ تھے انہی کے ساتھ ہمیں میدان پر اترنا تھا۔ہمیں اس بات کا علم تھا کہ کھلاڑیوں میں تجربہ کا فقدان ہے لیکن ان میں جوش اور جذبہ زبردست تھا۔ پورے ٹیسٹ میں ہم نے کسی بھی سیشن میں میزبان ٹیم کو حاوی ہونے کا موقع نہیں دیا۔ہمارے کھلاڑیوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
نسلی فکرےاور سلیجنگ کے درمیان خود کو کیسے پُرسکون رکھ سکے؟
 یہ سب باتیں کھیل کا حصہ ہیں۔ہمارےبلے بازوں کوباؤنسر مارکر انہیں ڈرانے کی کوشش کی گئی۔کسی بھی گیندباز کی کوشش ہوتی ہے کہ بلے باز ڈر کر کوئی غلطی کر بیٹھےمگر ہم نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا۔جہاں تک نسلی فکرے کسنے کی بات ہے تو کھیل میں اس کےلئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔بحیثیت کپتان مجھے اپنے کھلاڑیوں،ٹیم اور ملک کے بارے میں سوچنا تھا۔ ہمارے سامنے میدان سے باہر جانے کا متبادل موجود تھا لیکن ہم وہاں کرکٹ کھیلنے گئے اس لئے میدان چھوڑنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔
سات؍کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کے باوجود ٹیم کا حوصلہ کیسے بنائے رکھا۔کیا صلاح دی تھی کھلاڑیوں کو؟
 سڈنی ٹیسٹ تک پہنچتے پہنچتے ہمارے کئی کھلاڑی زخمی ہوچکے تھے۔ملبورن کی جیت کے بعد ہمیں یقین تھا کہ اگر ہم اپنی صلاحیت کے مطابق کھیلے تو سڈنی میں بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔جڈیجہ پہلی اننگز میں زخمی ہونے کے باوجود بلے بازی کےلئے تیار تھے لیکن اشون اور وہاری کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔میں نے کھلاڑیوں کو آزادی دی تھی کہ وہ اپنا فطری کھیل کھیلیں اور ٹیم کو بحران سے باہر نکالیں۔
ایڈیلیڈ میں ۳۶؍رنوں پر آؤٹ ہونے کے بعد آپ کو کپتانی کرنی تھی۔آپ کے دماغ میں کیا چل رہا تھا؟
 میرا فوکس صرف اس بات پر تھا کہ کھلاڑیوں پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہ رہے۔ایڈیلیڈ میں جو کچھ بھی ہواوہ ہم سب کو معلوم تھا۔ایڈیلیڈ ٹیسٹ کے بعد میں نے ساتھیوں سے اتنا ہی کہا تھا کہ کسی بھی منفی سوچ کو دماغ سے نکال دیں۔اگر ہم خود پر یقین رکھیں گے تو یقیناً بہتر کھیل پیش کر سکیںگے۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ برسبین میں زخمی ہونے کے باجوجود ہم نے کس جذبہ کے ساتھ کھیلا تھا۔
ٹیم کی بینچ  اسٹرینتھ کے بارے میں کیا کہیں گے؟
 اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس بہترین بینچ اسٹرینتھ ہے جس کا مظاہرہ آپ نے آسٹریلیا دورہ میں دیکھ لیا ہے۔شبھمن گل فرسٹ کلاس کرکٹ اور آئی پی ایل میں رن بنا چکے تھے۔ان پر کوئی دباؤ نظر نہیں آیا۔اپنی پہلی سیریز کھیل رہے سراج کو پتہ نہیں تھا کہ انہیں سیریز کے آخر میں اسٹرائیک گیندباز کا رول نبھانا پڑےگا ۔انہوںنے اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔ آخری ٹیسٹ میچ انہوں نے جس طرح کی گیندبازی کی اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری بینچ اسٹرینتھ کتنی مضبوط ہے جو خود کو ہر حالات میں ڈھال لیتے ہیں اور ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں پوری کوشش کرتے ہیں۔  نٹراجن اور سندر بھی نروس نظر نہیں آئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK