EPAPER
Updated: November 17, 2021, 1:11 PM IST | Agency | Dubai
وہ ڈیوڈ وارنر کو `بُل (غصیلے) کہا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک بار جنوبی افریقی گیند بازوں پرسوال کھڑا کیاکہ وہ ریورس سوئنگ حاصل کرنے کے لیے نامناسب وسائل استعمال کررہے ہیں اور خود وارنرہی ۴؍سال بعد سینڈ پیپر گیٹ میں قصوروارپائے گئے۔
وہ ڈیوڈ وارنر کو `بُل (غصیلے) کہا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک بار جنوبی افریقی گیند بازوں پرسوال کھڑا کیاکہ وہ ریورس سوئنگ حاصل کرنے کے لیے نامناسب وسائل استعمال کررہے ہیں اور خود وارنرہی ۴؍سال بعد سینڈ پیپر گیٹ میں قصوروارپائے گئے۔ وہ میدان پراتناسلیج کرتے تھے کہ انہیں۲۰۱۵ء کے ون ڈے ورلڈ کپ سے قبل ایک بار انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے خبردار کیا تھا اور حدود میں رہنے کو کہا تھا۔ اس کے باوجود آگے بھی وہ ایسا کرنے پر کئی بار تنازعات میں رہے اور یہاں تک کہ انہیں ایک بار ضرورت سے زیادہ سلیجنگ کی وجہ سے میدان بھی چھوڑنا پڑاتھا، لیکن سینڈ پیپر گیٹ میں پابندی سے واپس آنے کے بعد ان کی تصویر کچھ بدلی سی لگی۔ شاید یہ ان کے باپ بننے کا اثر تھا یا کچھ اور لیکن اب وہ میدان میں غصے سے زیادہ اپنی مسکراہٹ کیلئے جانے جانے لگے۔ وہ اب ٹک ٹاک پر ڈانس کے ویڈیو بھی بنانے لگے تھے۔اب وارنر کو بُل کے بجائے ہمبل یعنی شائستہ کہا جانے لگا اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ اب بالغ ہو چکے ہیں۔ لیکن پچھلے ایک ہفتے میں وارنر نے ایک مختلف کردار دکھایا ہے۔ اس کردار کو کوئی ’نک نیم‘ نہیں دیا جا سکتا، صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ آسٹریلوی کھلاڑیوں کا کردارہوتا ہے۔ یہ کنگارو ٹیم پہلے سے مختلف ہے۔ کپتان ایرون فنچ ایک مسکراہٹ کے ساتھ میدان میں داخل ہوتے ہیں، گلین میکسویل کھل کردماغی صحت کے بارے میں بات کرتے ہیں، ایڈم زمپا ڈریسنگ روم میں کافی بنا تے ہیں اور مارکس اسٹوئنس و زمپا کا `برومانس بحث کا موضوع رہتا ہے۔ مجموعی طور پر آسٹریلیا کی یہ ٹیم پرانی کنگارو ٹیموں سے مختلف ہے اور ان میں جارحیت کے ساتھ ساتھ جذبات بھی ہیں۔