Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہندوستانی ٹیم کی کپتانی ہمیشہ سے غیر یقینی مدت کیلئےرہتی ہے

Updated: December 13, 2021, 2:22 PM IST | Agency

ہندوستان نے اعدادو شمار کے مطابق اپنے سب سے کامیاب ون ڈے کپتان کو کپتانی سے ہٹا دیا ہے

Virat Kohli .Picture:INN
وراٹ کوہلی ۔تصویر: آئی این این

وراٹ کوہلی کو ون ڈے ٹیم کی کپتانی سے ہٹائے جانے کے بعد  یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہندوستانی ٹیم کی کپتانی ہمیشہ غیر یقینی  مدت  کے لئے رہتی ہے۔ جب آپ اس عہدے پر ہوتے ہیں تو آپ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آپ کو کسی بھی وقت اس عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔
 ہندوستان  نے اعدادو شمار کے مطابق  اپنے سب سے کامیاب ون ڈے کپتان کو کپتانی سے ہٹا دیا ہے۔۳۳؍ سالہ کپتان نے ۳؍ ماہ قبل ٹی ۲۰؍ انٹرنیشنل ٹیم کی کپتانی چھوڑنے کے بعد ون ڈے اور ٹیسٹ میں کپتانی جاری رکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی  اور تو اور  یہ تبدیلی طویل المدتی مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں کی گئی کیونکہ نیا کپتان پرانے کپتان سے ڈیڑھ سال بڑا ہے۔ ہندوستان میں اس سے قبل  اس عمر کے کرکٹر کو کپتانی سونپی گئی تھی -انل کمبلے کو۳۷؍ سال کی عمر میں کپتانی سونپی گئی تھی۔ اگرچہ وہ فیصلہ بھی طویل المدتی نہیں تھا لیکن اس کے پیچھے بہت سی منطقی وجوہات تھیں۔  راہل دراوڑ  کے استعفیٰ کے بعد یہ تقرری ضروری ہوگئی  اور ایم ایس دھونی  شارٹ فارمیٹ کے کرکٹ کی کپتانی کررہے تھے۔ ایک بات طے ہے کہ اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہندوستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) کے ذریعہ کیا جا رہا ہے۔
  ہندوستانی کرکٹ میں کپتانی میں کسی بھی تبدیلی کی تصدیق بورڈ کے صدر کے ذریعہ کی جانی چاہئے توابھی سلیکٹرس اور بی سی سی آئی کے صدر واضح طور پر مانتے ہیں کہ  ہندوستانی کرکٹ میں سابق کپتان، جن کی قیادت میں ہندوستان نے ہر ۲؍ میچ ہارنے کے مقابلے میں  ۵؍ میچ جیتے ہیں اور جس کی قیادت میں ٹیم ۲؍ آئی سی سی ٹورنامنٹ کے فائنل اور سیمی فائنل  میں گئی، سے بھی ایک بہتر کپتان ہے۔
 یہ بھی ممکن ہے کہ سلیکٹرس اور بی سی سی آئی نے اعداد و شمار کے علاوہ کسی اور طریقے سے معیار طے کیا ہو۔  ٹی۲۰؍ ورلڈ کپ کے علاوہ تمام ٹورنامنٹس میں، آپ  ہندوستانی ٹیم کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے  ان سے سیمی فائنل میں داخلہ کرنے کی امید کرتے ہیں۔  وراٹ کوہلی کی کپتانی میں ٹیم بڑی آسانی کے ساتھ ناک آؤٹ مرحلے میں داخل ہوئی ہے۔وراٹ  کی قیادت میں  ہندوستان نے اپنے دو سب سے بڑے میچ ونر، دو انگلیوں والے اسپنرس کوٹیم سے باہر کرنے کا  جرات مندانہ قدم اٹھایا  لیکن انہوں نے اس میں دیر کردی تھی۔۲۰۱۷ء کی  چمپئن ٹرافی میں وہ واحد  ایسی ٹیم تھی جس میں کلائی کے اسپنر نہیں تھے ۔ اس کے لئے  ذمہ دار کون تھا، یہ کبھی معلوم نہیں ہوسکے گا۔
  ۲۰۱۹ءکا ورلڈ کپ زیادہ مایوس کن تھا۔۲۰۱۸ء کے اوائل میں، اجنکیا رہانے کو ہندوستان کا نمبر۴؍ماناجاتا تھا۔ تاہم  رہانے کے بارے میں دھونی کا اندازہ تھا کہ وہ پاور پلے اور گیند کے پرانے ہونے کے بعد جدوجہدکرتے ہیں۔ ان کی جگہ امباتی رائیڈو ٹیم میں آئے لیکن ورلڈ کپ سے ٹھیک پہلے ایک سادہ سیریز کے بعد انہیں ڈراپ کردیا گیا۔ ورلڈ کپ کے دوران ہندوستانی ٹیم کے پاس ایک بیک اپ آل راؤنڈر تھا جس کے پاس ون ڈے میچ میں اننگزکو اینکرکرنے کا پہلے سے کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ساتھ ہی  ٹیم میں ایک وکٹ کیپر بلے بازجو پہلی پسند نہیں تھا۔ ٹیم کی قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور ایک اہم میچ میں تمام تر ذمہ داری اس مڈل آرڈر پر آ گئی۔
 بلاشبہ سلیکٹرس اور بی سی سی آئی کو اس طرح کی کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وراٹ نے پہلے ہی ٹی ۲۰؍ کی کپتانی چھوڑ کر اپنی قسمت کا فیصلہ کرلیاتھا۔ یہ درست فیصلہ ہے کہ ایک ہی شخص محدود اوورس کی ٹیم کی قیادت کرے۔ ٹی۲۰؍ فارمیٹ میں وراٹ کی کپتانی مشکوک تھی۔ آئی پی ایل میں بطور کپتان ان کا ریکارڈ کچھ خاص نہیں تھا اور ٹیم انڈیا میں کھلاڑیوں کے کردار واضح نہیں تھے۔ روہت کی ٹیم میں اپنے کھلاڑیوں کے لئے  واضح کردار اور منصوبے ہیں اور وہ ڈیٹا کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ وراٹ جذبات پر چلتے ہیں جبکہ روہت جذبات کو جگہ ہی نہیں دیتے ہیں۔
 اگر اس فیصلے کے پیچھے یہی منطق تھی تو۲۰۱۹ء کے بعد یہ فیصلہ کرنے میں بی سی سی آئی کو ڈھائی سال کیوں لگے؟ وراٹ کے بلے کا نہ چلنا شاید اس فیصلے کے پیچھے کا سبب ہوسکتا ہے  جو یوراج سنگھ کے اس اشتہارمیں کہی گئی بات کودرست ثابت کرتا ہے۔ ’’جب تک بلہ چل رہا ہے دنیاآپ کی ہے۔‘‘ جب۲۰۱۷ء میں دھونی کا بلہ نہیں چل رہا تھا تو ان کے ساتھ بھی ایسی ہی صورتحال تھی لیکن تب دھونی خود ہی اپنے عہدے سے ہٹ گئے اوروراٹ کے ساتھ جب ایسا ہوا تو انہیں اپنی ون ڈے کپتانی پر یقین تھا، خود پر یقین تھا اور انہوں نے اس عہدے کو چھوڑنے سے انکارکردیا۔یہ کبھی آسان نہیں ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ واضح ہے کہ وراٹ کپتانی چھوڑنا نہیں چاہتے تھے، جس کی وجہ سے ٹیم کے نئے کپتان کو کپتانی میں کچھ تکلیف ہوسکتی ہے۔ یہ انتہائی اہم کھلاڑی ہیں بغیر کسی شک کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ٹیم کے ماحول کی کامیابی جس پر وراٹ کو فخر ہے، اس بات پر منحصر ہے کہ وہ یہاں سے کتنی پختگی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ ہاں، ہم ایک دوسرے کے عزائم کا احترام کرتے ہیں، اب معاملہ اتنے تک ہے کہ اس صورتحال کو سنبھالنے کے لیے ہم کتنے پختہ ہیں۔ کوچ راہل دراوڑ ماضی میں بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچارہوچکےہیں جب بی سی سی آئی نے آخری بار ہندوستانی کپتان کو برطرف کیا تھا۔ تاہم اس بار معاملہ کچھ مختلف ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK