EPAPER
Updated: May 27, 2020, 4:00 AM IST | Agency | New Delhi
اولمپک طلائی تمغہ یافتہ اور ہاکی لیجنڈ بلبیر سنگھ سینئر ملک کا چوتھا سب سے اعلیٰ شہری اعزاز پانے والے پہلے کھلاڑی تھے۔
اولمپک طلائی تمغہ یافتہ اور ہاکی لیجنڈ بلبیر سنگھ سینئر ملک کا چوتھا سب سے اعلیٰ شہری اعزاز پانے والے پہلے کھلاڑی تھے۔
بلبیر سنگھ سینئر کا طویل علالت کے بعد پیر کی صبح موہالی میں انتقال ہو گیا۔ بلبیر کے انتقال سے کھیل کی دنیا میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔ملک کے چوتھے سب سے اعلیٰ شہری اعزاز کی شروعاتو ۱۹۵۴ء میں ہوئی تھی اور بلبیر یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے کھلاڑی بنے تھے۔
بلبیر نے۱۹۴۸ء کے لندن اولمپکس، ۱۹۵۲ء کے ہیلسنکی اولمپکس اور۱۹۵۶ء کے میلبورن اولمپکس میں ہندوستان کو طلائی تمغہ دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔میلبورن میں وہ ہندوستانی ٹیم کے کپتان تھے۔انہوں نے اپنا اولمپک ڈیبو۱۹۴۸ء کے لندن اولمپکس میں ارجنٹائنا کے خلاف کیا تھا۔یہ میچ ہندوستان نے ایک۔۹؍ سے جیتا تھا جس میں بلبير نے ہیٹ ٹرک سمیت ۶؍ گول کئے تھے۔میزبان برطانیہ کے خلاف فائنل میں بلبیر کے ۲؍ گول کی بدولت ہندوستان صفر۔۴؍سے جیتا تھا۔
۱۹۵۲ء کے اگلے ہیلسنکی اولمپکس میں وہ ہندوستانی ٹیم کے نائب کپتان تھے اور برطانیہ کے خلاف سیمی فائنل میں انہوں نے تمام ۳؍ گول کئے تھے۔ ہندوستان نے فائنل میں ہالینڈ کو ایک۔۶؍ سے شکست دی تھی جس میں بلبیر نے ہیٹ ٹرک سمیت ۵؍ گول کئے تھے۔ فائنل میں ۵؍گول کرنے کا ان کا ریکارڈ آج بھی قائم ہے۔ وہ ۱۹۵۶ء کے میلبورن اولمپکس میں ہندوستانی ٹیم کے کپتان تھے۔ اس کے اگلے سال۱۹۵۷ء میں انہیں پدم شری سے نوازا گیا تھا اور یہ کامیابی حاصل کرنے والے وہ ملک کے پہلے کھلاڑی بنے تھے۔
لندن میں طلائی تمغہ جیتنے کے بعد جب ہندوستانی ٹیم پانی کے جہاز سے واپس پہنچی تو بامبے (اب ممبئی) میں ان کا جہاز جوار بھاٹہ میں پھنس گیا تھا۔دو دن اسی حالت میں رہنے کے بعد جہاز بامبے کی بندرگاہ پر لگ سکا۔لیکن اس دوران بہت سے کھیل شائقین کشتیوں پر سوار فاتح کھلاڑیوں کو مبارک دینے پانی کے جہاز پر پہنچ گئے تھے۔
وطن لوٹنے کے کچھ دنوں بعد دہلی کے نیشنل اسٹیڈیم میں اولمپک فاتح ٹیم اور ریسٹ آف انڈیا کے درمیان ایک نمائشی میچ کھیلا گیا جس میں بلبیر نے فاتح گول کر کے اولمپک ٹیم کو صفر۔ایک سے جیت دلائی۔اس میچ کو دیکھنے کے لئے اس وقت کے صدر راجندر پرساد اور وزیر اعظم جواہر لال نہرو بھی اسٹیڈیم میں موجود تھے۔
بلبیر سنگھ کی آخری رسومات اداکی گئیں
پدم شری اعزاز سے سرفراز ہندوستان کے سابق ہاکی کپتان اور ۳؍ بار کے اولمپک گولڈ میڈل فاتح بلبیر سنگھ سینئر کا پیر کو پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات ادا کی گئیں۔
بلبیر کا پیر کی صبح طویل بیماری کے بعد موہالی میں ایک نجی اسپتال میں انتقال ہوگیا تھا۔ وہ ۹۶؍برس کے تھے۔ ان کے پوتے کبیر سنگھ نے انہیں نذر آتش کیا۔ ان کی بیٹی سکھبیر کور بھی اس موقع پر موجود تھیں۔پنجاب کے وزیراعلیٰ دفترکے ترجمان نے بتایا کہ وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کی جانب سے ریاست کے وزیر کھیل راناگرمیت سوڈھی نے بلبیر کی جسد خاکی پر گلہائے عقیدت پیش کیا۔پنجاب پولیس نے بلبیرکے اعزاز میں بندوقوں سے سلامی پیش کی۔ اولمپین اور ایم ایل اے پرگٹ سنگھ اور پرمندر سنگھ ڈھنڈسا نے بھی بلبیر کو خراج عقیدت پیش کیا۔ آخری رسومات کے وقت ہاکی انڈیا، پنجاب اولمپک اسوسی ایشن اور پنجاب ہاکی کے نمائندے موجود تھے اورانہوں نے آنجہانی کے جسد خاکی پر گلہائے عقیدت پیش کیا۔
بلبیرسنگھ کے لئے خوش قسمت ثابت ہوئی۱۳؍نمبر کی جرسی
کھیلوں میں ۱۳؍ نمبر کو بد شگون سمجھا جاتا ہے لیکن ہندوستان کے سابق ہاکی کپتان بلبیر سنگھ سینئر کے لئے۱۹۵۲ء میں ہیلسنکی میں ہوئے اولمپکس میں۱۳؍ نمبر کی جرسی خوش قسمت ثابت ہوئی۔۳؍بار اولمپک فاتح ٹیم کے رکن رہے بلبیر کا پیر کو موہالی میں طویل بیماری کے بعد انتقال ہو گیا۔بلبیر کی شاندار کارکردگی کےنہ مٹنے والے نشان مستقبل کے کھلاڑیوں کے لئے ہمیشہ منبع تحریک رہیں گے۔ ہیلسنکی میں ہوئے۱۹۵۲ء کے اولمپک کھیلوں میں بلبیر سنگھ کو ہندوستانی ٹیم کا نائب کپتان منتخب کیا گیا تھا اور انہیں۱۳؍ نمبر کی جرسی پہننے کے لئے دی گئی تھی۔کھیل میں اس نمبر کو بدشگون سمجھا جاتا ہے لیکن یہ نمبر بلبیر کے لئے خوش قسمت رہا۔پورے ٹورنامنٹ میں ہندوستان نے کل۱۳؍ گول اسکور کئے تھے، ان میں سے اکیلے بلبیر کے ۹؍ گول تھے۔ہیلسنکی اولمپکس میں بلبیر سنگھ ہندوستانی ٹیم کے علمبردار بنائے گئے تھے اور افتتاحی تقریب میں مارچ پاسٹ کے دوران ہزاروں کبوتر اڑائے گئے تھے۔ان میں سے ایک کبوتر نے بلبیر کے بائیں جوتے پر بیٹ کر دی تھی، اس کے باوجود وہ مارچ کرتے رہے۔بلبیر نے اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ہیلسنکی اولمپکس میں ہندوستانی ٹیم کا علمبردار تھا اور پریڈ کے دوران ہزاروں کبوتر اڑائے گئے جو ہمارے اوپر سے پرواز کر گئے۔ ان میں سے ایک کبوتر نے میرے اوپر بیٹ کر دی جو کہ میرے بائیں پیرکے جوتے پر گری لیکن میں حیران پریشان ہوکر مارچ کرتا رہا۔انہوں نے کہا تھا کہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں ان کبوتروں نے میرے ہندوستان کے بلیزر کو تو گندا نہیں کر دیا۔تقریب کے بعد میں کاغذ تلاش کرنے لگا جس سے میں اپنے جوتے پر کبوتر کی بیٹ صاف کر سکوں، تبھی آرگنائزنگ کمیٹی کے ایک رکن نے میری پیٹھ پر ہاتھ مار کر مبارک ہو، فن لینڈ میں بائیں جوتے پر کبوتر کی بیٹ گرنے کو مبارک سمجھا جاتا ہے۔