Inquilab Logo Happiest Places to Work

تحریک لبیک کا احتجاج دوبارہ شروع، آج لانگ مارچ

Updated: October 22, 2021, 11:03 AM IST | Agency | Lahore

اہانت آمیز کارٹون کے خلاف احتجاجاً فرانسیسی سفیر کو پاکستان سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ عمران خان حکومت کے وعدے کے باوجود، ۶؍ ماہ کا عرصہ گز ر جانے کے بعد بھی پورا نہیں ہوا۔ تنظیم کے ناراض کارکنان ایک بار پھر سڑکوں پر اترے ، آج نماز جمعہ کے بعد اسلام آباد کی جانب کوچ کرنے کا اعلان

In Lahore, Tehreek-e-Klub workers have blocked the road.Picture:INN
لاہور میں’ تحریک لبیک‘ کے کارکنان ن سڑک جام کر رکھی ہےتصویر: ایجنسی

 پڑوسی ملک پاکستان میں فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ ایک بار پھر زور پکڑتا جا رہا ہے۔ احتجاج کے قائد مرحوم خاد م حسین رضوی  کی تنظیم نے ایک بار پھر اس معاملے میں دھرنا شروع کر دیا ہے جبکہ آج بعد نماز جمعہ اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال فرانس میں  اہانت آمیز کارٹون کو دوبارہ شائع کئے جانے اور فرنسیسی صدر ایمانویل میکرون  کی جانب سے  اس اشاعت کی حمایت کرنے سے پاکستان میں ناراضگی پھوٹ پڑی تھی اور خادم حسین رضوی کی قیادت میں لوگ سڑکوں پر اتر آئے تھے۔ لیکن بعد میں  حکومت کے اس وعدے پر کہ وہ فرانس کی اس حرکت سے نپٹنے اور اس کے سفیر کو واپس بھیجنے کا  خود ہی کوئی راستہ اختیار کرے گی، یہ احتجاج واپس لے لیا گیا تھا۔ لیکن اب اس وعدے کو ۶؍ ماہ پورے ہو چکے ہیں  اس لئے تنظیم’تحریک لبیک‘  جو کہ اسی احتجاج کی وجہ سے ممنوعہ قرار دی گئی ہے  ، نے دوبارہ احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔  واضح رہے کہ ۱۹؍ اکتوبر کو نکالے گئے عید میلاد النبی ؐ کے جلوس کو تحریک لبیک نے  احتجاج میں تبدیل کر دیا تھا اور اس کے کارکنان لاہور میں اسی جگہ دھرنے پر بیٹھ گئے جہاں وہ اس سے پہلے بیٹھے تھے۔ تنظیم نے حکومت کو جمعرات کی شام ۵؍ بجے تک کا الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال دے ورنہ وہ پورے ملک میں دوبارہ احتجاج شروع کریں گے نیز جمعہ کو اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔  حکومت نے اس ڈیڈ لائن تک ان کا مطالبہ پورا نہیں کیا جس کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ 
 شیخ رشید کا فرانس کے سفیر کو نکالنے سے انکار
  ادھر پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’’ تحریک لبیک  کے کہنے پر ہم فرانسیسی سفیر کو ملک بدر نہیں کر سکتے۔ ‘‘ ان کاکہنا ہے کہ’’ فرانس کے سفیر کو نکال باہر کرنے سے ہم یورپی یونین سے باہر ہو جائیں گے اور ہمیں (کاروباری سطح پر) نقصان اٹھانا پڑے گا۔‘‘  احتجاج کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ ’’ جنہیں احتجاج کرنا ہے وہ شوق سے کریں ، ہم کچھ نہیں  کہیں گے، لیکن اگر کسی نے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو ہم اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔ ‘‘
کارکنان کی گرفتاریاں
   دوسری طرف حکومت نے تحریک لبیک کے کارکنان کی گرفتاریاں شروع کر دی ہیں۔ جمعرات کو بڑے پیمانے پر ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔  بعض لوگوں  کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے ۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ریلوسے اسٹیشن پر حملہ اور لوٹ مار کرنے کی کوشش کی تھی۔ ادھر دھرنےکے مقام پر پولیس نے دونوں جانب سے ٹریفک کو بند کر رکھا ہے۔ وہاں سے کسی طرح کے تشدد کی کوئی خبر نہیں آئی ہے۔ البتہ ڈیوٹی پر تعینات افسروں کو کہناہے کہ مظاہرین نے دھرنے کے مقام پر ۲؍ آئل ٹینکر کھڑے کئے ہیں جن میں پیٹرول بھرا ہوا ہے۔ پولیس کی ان پر نظر ہے۔ کسی نے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو  اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ 
 احتجاج کا پس منظر 
 گزشتہ سال نومبر میں اہانت آمیز کارٹون کے خلاف لاہور سمیت پورے پاکستان میں تحریک لبیک نے احتجاج شروع کیا تھا۔لیکن احتجاج  کے دوران ہی خادم حسین رضوی کا انتقال ہو گیا تھا۔  اس وقت عمران خان کی حکومت نے تحریک لبیک سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ خود ناموس رسول ؐ کیلئے آواز بلند کرنے کی پابندی ہے لیکن اس پر ایک حکمت عملی کے تحت عمل کیا جائے گا۔ فی الحال تنظیم اپنا احتجاج واپس لے لے تنظیم نے ایسا ہی کیا لیکن۔ وعدے کی مدت پوری ہونے کے بعد جب عمران خان حکومت نے فرانس کے سفیر کو واپس نہیں بھیجا تو تنظیم کے کارکنان پھر سڑکوں پر آ گئے اور  انہوں نے پر تشدد احتجاج شروع کر دیا۔ اس کے بعد تنظیم کو دہشت گرد قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔  تحریک لبیک کے نئے قائد  سعد حسین رضوی کو گرفتار کر لیا گیا جو کہ خادم حسین رضوی کے بیٹے ہیں۔اس کے بعد جب احتجاج بڑھا تو پھر حکومت نے تنظیم کے ساتھ مذاکرات کئے اور جلد ہی فرانس کے سفیر کو واپس بھیجنے سے متعلق اقدامات کرنے کا وعدہ کیا۔ اس وعدے کو ۶؍ ماہ گزر گئے مگر کچھ نہیں ہوا لہٰذا یہ احتجاج دوبارہ شروع کر دیا گیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK