EPAPER
Updated: December 17, 2021, 8:17 AM IST | Geneva
مملکت کی جانب سے پہلی بار صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کا باقاعدہ عندیہ، البتہ اسرائیل کیلئے ۲۰۰۲ء کے امن فارمولے کو تسلیم کرنے کی شرط۔ اقوام متحدہ میں سعودی نمائندے نے ایک انٹرویو کے دوران دعویٰ کیا کہ صرف ریاض ہی نہیں دنیا کے تمام ۵۷؍ مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے
سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ دعویٰٗ صحیح ثابت ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے کہ بہت ہی جلد سعودی عرب سمیت دنیا کے کئی مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گےکیونکہ سعودی عرب کی جانب سے پہلی بار علی الاعلان اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ حالانکہ اس کیلئے ۲۰۰۲ء میں سعودی عرب کی جانب سے پیش کئے گئے امن فارمولے کو تسلیم کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔
اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے نمائندے عبداللہ معلمی نے ایک انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ ’’ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہے اگر وہ ۲۰۰۲ء کے امن فارمولے کو تسلیم کرلے۔‘‘ اتنا ہی انہوں نے یہاں تک کہا کہ ’’ صرف سعودی عرب ہی نہیں دنیا کے تمام ۵۷؍ مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے جو کہ آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن ( او آئی سی) میں شامل ہیں۔ ‘‘ یاد رہے کہ ۲۰۰۲ء میں سعودی عرب نے ایک امن فارمولہ پیش کیا تھا جس کی رو سے اسرائیل کو اس بات کا پابند بنایا جانا تھا کہ وہ ۱۹۶۷ء میں قبضہ کی گئی فلسطینی زمینوں کو خالی کردے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو جس کا دار الحکومت یروشلم ہو۔ لیکن اس فارمولے کو اسرائیل نے مسترد کر دیا تھا اور اس کے بعد مزید کئی فلسطینی علاقوں پر اس نے قبضہ کرکے یہودی بستیاں بسائی ہیں۔ ۲۰۲۰ء میں جب ڈونالڈ ٹرمپ کی ایما پر متحدہ عرب امارات ، بحرین ، اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو سعودی عرب کی جانب سے اس کی مذمت نہیں کی گئی بلکہ یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان پروازوں کیلئے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ البتہ کچھ دنوں بعد اسرائیل کو تسلیم کرنےکی خبروں کی تردید کی گئی تھی۔
لیکن اس بار عبداللہ معلمی نے کھل کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا’مشروط‘ اعلان کیا ہے۔ انٹرویو کے دوران معلمی سے پوچھا گیا کہ اسرائیل سے آپ ۱۹۶۷ء میں قبضہ کئے گئے علاقوںکو خالی کردینے کی توقع کیسے کر رہے ہیں جبکہ اس نے دہائیوں سے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا ہے؟ جواب میں سعودی نمائندے نے کہا ’’ وقت کے ساتھ صحیح یا غلط تبدیل نہیں ہو جاتا۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ غلط ہے چاہے اسے کتنا ہی عرصہ کیوں نہ گزر گیا ہو۔‘‘ عبداللہ معلمی نے واضح کیا کہ ’’ غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی سرگرمیاں جیسے یہودی بستیوں کی تعمیرات ، یا فلسطینیوںکے حقوق کو نظر انداز کرنا وغیر غلط ہے اور یہ کبھی( اس کا غلط ہونا) تبدیل نہیں ہو سکتا بھلے ہی اسے کتنا ہی عرصہ کیوں نہ گزر جائے۔ تو وقت صحیح یا غلط کو تبدیل نہیں کرتا۔‘‘
واضح رہے کہ سعودی عرب کا یہ موقف وہی ہے جو اس نے گزشتہ سال متحدہ عرب اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے بعد ظاہر کیا تھا ۔ فرق اتنا ہے کہ اس وقت یہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط معلوم ہو رہی تھی جبکہ اب یہ خواہش معلوم ہو رہی ہے ، کیونکہ عبداللہ معلمی نے انٹرویو کے دوران کہا کہ ’’ اسرائیل جتنی جلد ہو سکے اسے ( امن فارمولے کو) تسلیم کرلے اتنی جلدی ہم اسے تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ‘‘ یاد رہے کہ عبداللہ معلمی نے جن ۵۷؍ ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کہی ہے اس میں ترکی، پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں جنہوں نے بیشتر معاملات پر اسرائیل کی وقتاً فوقتاً مخالفت کی ہے۔ فی الحال ان ممالک میں سے کسی نے بھی سعودی عرب کے موقف پر اپنا رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
امن فارمولے کی حیثیت
یاد رہے کہ ۲۰۰۲ء میں سعودی عرب نے اقوام متحدہ میں ایک فارمولہ پیش کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل ۱۹۶۷ء میں قبضہ کی گئی فلسطینی زمین کو خالی کردے اور اپنی سرحدوں کو پیچھے کر لے۔ ساتھ ہی وہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کو منظوری دے جس کا دارلحکومت یروشلم ہو۔ حالانکہ اسرائیل نے اسے مسترد کر دیا تھا لیکن اگر وہ تسلیم کر لیتا تب بھی یہ قانون اور انصاف کی رو سے غلط ہوتا کیونکہ اسرائیل کی پوری سرزمین دراصل فلسطین کی ہے جس پر ۱۹۴۸ء میں جبراً قبضہ کیا گیا تھا۔ اس طرح سعودی کا یہ فارمولہ خود نا انصافی پر مبنی ہے۔