EPAPER
Updated: February 11, 2022, 9:12 AM IST | Riyadh
اتحادی فوج نے ڈرون کو ہوا ہی میں نشانہ بنا کر اڑا دیا لیکن اس کا ملبہ ایئرپورٹ پر آگر ا اور متعدد افراد اس کی زد میں آ گئے۔ زخمیوں کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی لیکن ان کا تعلق مختلف قوم اور ممالک سے ہے۔ اب تک کسی بھی تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، البتہ اتحادی فوج نے سخت کارروائی کا عندیہ ظاہر کیا
سعودی عرب کے خلاف حوثی باغیوں کی کارروائیاں جاری ہیں۔ خاص کر یمن کی سرحد سے قریب ابہا ایئر پورٹ پر کئی بار ڈرون حملے ہوئے ہیں ۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر جمعرات کو پھر ایک بار ابہا ایئرپورٹ پر ڈرون حملہ ہوا جسے گزشتہ کئی بار کی طرح ناکام تو بنا دیا گیا لیکن اس بار اس حملے میں ۱۲؍ افراد زخمی ہوگئے کیونکہ نشانہ بنائے گئے ڈرون کا ملبہ ایئر پورٹ پر ہی گر پڑا اور یہ لوگ اس کی زد میں آ گئے۔ حالانکہ اب تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ یہ حملہ بھی حوثی باغیوں ہی کی جانب سے کیا گیا تھا یا کہیں اور سے۔ اب تک نہ تو حوثیوں کی جانب سے نہ ہی کسی اور تنظیم کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے کئی بار ابہا ایئر پورٹ پر حملہ ہوا ہے لیکن کسی بھی ڈرون کو اس کے نشانے تک پہنچنے سے پہلے ہی اڑا دیا جاتا تھا۔ اس لئے اب تک اس میں بہت کم جانی نقصان ہوا ہے۔ جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی اکا دکا ہی رہا کرتی تھی۔ صرف اگست ۲۰۱۹ء میں ہوئے حملے میں یہاں ۸؍ افراد زخمی ہوئے تھے۔ جمعرات کو ہونے والا حملہ ایسا پہلا حملہ تھا جو ناکام ہوتے ہوئے بھی اتنے لوگوں کوزخمی کر گیا۔ عرب اتحاد کے ترجمان نے بتایا کہ جمعرات کی سہ پہر ہونے والے اس حملے میں ۱۲؍ افراد زخمی ہوئے ہیں جن کا تعلق الگ الگ قوم اور ممالک سے ہے۔ فی الحال زخمیوں کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی یہ تفصیلات سامنے آئی ہے کہ زخمی ہونے والوں کا تعلق کن ممالک سے ہے ۔ یاد رہے کہ سعودی عرب کا ابہا ایئر پورٹ بین الاقوامی پروازوں کیلئے استعمال ہوتا ہے اور یہاں غیر ملکیوں کی آمدو رفت جاری رہتی ہے۔
حالانکہ حملے کے بعد ایئر ٹریفک رک گیا تھا اور پروازوں کو روک گیا گیا تھا۔ لیکن حکام کے مطابق ایک گھنٹے بعد ہی ایئر ٹریفک بحال کر دیا گیا اور پروازوں کی آمدورفت شروع ہو گئی۔ سعودی حکومت کی جانب سے اب تک حملے کے بارے میں کوئی بیان نہیں آیا ہے، البتہ، عرب اتحاد فوج نے کہا ہے کہ وہ اس حملے کے جواب میں سخت اقدامات کریں گے۔ فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’’ ہم شہری ہوائی اڈوں اور مسافروں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت فوجی کارروائی کریں گے۔‘‘ حالانکہ اتحادی فوج نے بھی اپنےبیان میں کسی مخصوص تنظیم کا نام نہیں لیا ہے لیکن ان کے بیان کو حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی کا ہی اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے اس ایئر پورٹ پر جتنے حملے ہوئے ان کی یا تو حوثیوں نے ذمہ داری قبول کی ہے یا پھر سعودی حکام نے خود ان پر یہ الزام لگایا ہے۔ یا د رہے کہ گزشتہ ماہ سعودی کے برادر ملک متحدہ عرب امارات پر بھی حوثیوں نے حملہ کیا تھا جس میں ۳؍ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ مگر یہ حملہ آئل ٹینکر پر تھا۔ سعودی عرب پر بھی آئل تنصیبات پر متعدد بار حملہ ہوا ہے لیکن سب سے زیادہ ابہا ایئر پورٹ پر حملے ہوئے ہیں کیونکہ یہ یمن کی سرحد سے قریب ہے اور حوثیوں کی زد میں آسانی سے آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتحادی فوج نے یہاں بڑے پیمانے اپنے فوجیوں کو تعینات کر رکھا ہے تاکہ وہ ایئر پورٹ کی حفاظت کر سکے۔ ساتھ ہی کسی بھی ڈرون حملے کی صورت میں اسے ناکام بنانےکیلئے سسٹم بھی نصب کر رکھا ہے۔
حوثی باغیوں اور سعودی کی چپقلش
عام طوپر سعودی عرب اور حوثی باغیوں کے درمیان جاری چپقلش اور حملوں کو سعودی اور ایران کے تعلقات کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں حوثی باغیوں نے یمن حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے ۔ سعودی عرب نے یمن حکومت کی مدد کیلئے اپنی فوج بھیجی جس کے سبب حوثی سعودی عرب کے دشمن ہو گئے۔ ادھر ایران کو حوثیوں کا حامی سمجھا جاتا ہے۔سعودی میڈیا کا الزام ہے کہ ایران ہی حوثی باغیوںکو ہتھیار سپلائی کرتا ہے۔ جیسے جیسے ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی، اسرائیل کی جانب سے کسی نہ کسی خفیہ کارروائی میں ایران کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ جبکہ جواب میں سعودی عرب کےآئل ٹینکروں اورپلانٹس پر ڈرون حملے شروع ہوئے۔ ایران نے ہمیشہ سعودی عرب پر ہونے والے حملوں سے خود کو الگ بتایا حوثی باغیوں نے کھل کر ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ اس لئے خلیجی ممالک کے ماہرین سعودی پر ہونے والے حملوںکو ایران کے ساتھ اس کی کشیدگی کے تناظر ہی میں دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب کا امریکہ کا حلیف ہونا بھی اس کی ایک وجہ قرار دی جاتی ہے جوکہ ایران اور اور حوثی دونوں ہی کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔