EPAPER
Updated: October 05, 2020, 9:13 AM IST | Sharjeel Qureshi | Jalgaon
پونے جنگلی مہاراج روڈ سلسلہ وار بم دھماکوں کے مشتبہ ملزم سید فیروز کے والد عبدالحمید سید اس دارفانی سے کوچ کر گئے
یکم اگست۲۰۱۲ء کو پونے کے جنگلی مہاراج روڈ پر ہوئے سلسلہ وار ۵؍ بم دھماکوں کے الزام میں پونے،ناندیڑ اور اورنگ آباد کے کچھ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ان ہی میں پونے کا فیروز عبدالحمیدسید بھی ایک ہے جو پیشہ سے فیشن ڈیزائنر ہے۔اس کے والد عبدالحمید سید کا طویل علالت کے سبب انتقال ہوگیا ۔انکی تدفین سنیچر کی شام بعد نماز مغرب پونے کے گرو وار پیٹھ کے امام باڑہ قبرستان میں عمل آئی ۔
مرحوم عبدالحمید سید کے اہل خانہ میں بیوی، بہو اورفیروز سید کے۴؍ بچے شامل ہیں۔مرحوم عبدالحمید سید آخری سانس تک اپنے بیٹے فیروز کو بے گناہ قرار دیتے رہے ،فیروز کی بے گناہی کے لئے ان کا کہنا تھا کہ جس وقت بم دھماکے ہوئے اس وقت رمضان کا مبارک ومقدس مہینہ کا چل رہا تھا۔ دھماکے کے وقت فیروز سید پونے کیمپ میں واقع ٹیلرنگ کی شاپ پر اپنے ساتھی کارکنوں کے ساتھ روزہ کھول رہا تھا۔یہ سارا مناظر سی سی ٹی وی کیمرے میں قید ہیںلیکن بدقسمتی سے جانچ ایجنسی دہلی اسپیشل سیل کے عہدیداروں نے ان تمام شواہد کو مٹادیا ہے۔ ایسا الزام فیروز کےوالد مرحوم نے لگایا تھا ۔فیروز سید فی الحال غازی آباد یو پی کی جیل میں قید ہے ۔
ذرائع کے مطابق کئی سال سے فیروز سید اور اسکی فیملی کے درمیان کوئی خط و کتابت اور فون کال وغیرہ نہیں ہو ا ہے ۔اس کے والد اور اہل خانہ کو کئی دنوں سے یہ فکرستا رہی تھی کہ کورونا کے اس وبائی دور میں وہ محفوظ بھی ہے یا نہیں۔ان سارے غموں کے باوجود اور انصاف کے منتظر باپ کی آنکھیں آخر کار ہمیشہ کیلئے بند ہوگئیں۔
اس سلسلے میں مول نیواسی مسلم منچ پونے کے ذمہ دار انجم انعامدار نے پریس اعلانیہ میں فیروز سید کے غریب گھرانے سے تعلق رکھنے کا حوالے دے کر کہا اور مطالبہ بھی کیا کہ ’’فیروز سید پر ملک کی مختلف ریاستوں میں ہوئے بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے اس کے والد کی موت کے بعد اس کے کنبہ کیلئے چار یا پانچ ریاستوں میں جاکر اتنی بڑی جنگ لڑنا ممکن نہیں ہے اسی لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ۲۰۰۲ء سے ۱۰؍سال میں ہندوستان میں ہوئے تمام بم دھماکوں کے واقعات کو یکجا کرکے ان کی دوبارہ تحقیقات کی جانی چاہئے۔انجم انعامدار نے یہ بھی بتایا کہ فیروز سید تک اس کے والد کے انتقال کی خبر دوسرے دن بھی پہنچ نہیں پائی ۔