EPAPER
Updated: February 11, 2022, 9:59 AM IST | Nadeem asran | Mumbai
وکیل شاہداعظمی میموریل کے زیراہتمام مراٹھی پترکارسنگھ میں منعقدہ سمینار میں پروفیسر رام پنیانی کا اظہار خیال
مسلمانو ںکے خلاف ملکی سطح پر پھیلائی جانے والی نفرت اور ان کی نسل کشی کی سازش کے تعلق سے ایک سمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبوںسے تعلق رکھنے والے ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔وکیل شاہد اعظمی میموریل کے زیر اہتمام مراٹھی پتر کار سنگھ میں منعقدہ اس سمینارمیں معروف سماجی رضا کار اور پروفیسر رام پنیانی نے کہا کہ ’’ مذہب کی بنیاد پر نفرت ہی نسل کشی کا اہم سبب بنتی ہے ۔‘‘انہوںنے یہ بھی کہا کہ ’’حجاب کے نام پر، ہندو مسلم کے نام پر، گئو رکشا کے نام پر اورسی اے اے ، این آر سی کے نام پر نفرت کا ننگا ناچ کیا جاتا ہےاورپھر مسلمانوں کے قتل عام کی سازش کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نسل کشی کے زہر کو عام کرنے کیلئےجن سنگھی پہلے نفرت کو سلسلہ وار طریقہ سے لوگوں کے ذہنوں میں پھیلاتے ہیں، اس کے بعد ہجوم کی شکل میں ڈر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جب موقع ملتا ہے کھلے عام مسلمانوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی جاتی پھر موقع ملتے ہی قتل بھی کر دیا جاتا ہے ۔ ‘‘ انہوںنے مزیدکہا کہ ’’مسلمانوں کے ساتھ ہی ساتھ دلتوں اور عیسائیوں کے خلاف سازش کی شروعات ملک کی آزادی کی تحریک سے ہی شروع ہوچکی تھی ۔ ایک طرف بھگت سنگھ، سبھاش چندر بوس،با با صاحب امبیڈکر اور مہاتما گاندھی جیسے لوگ اس ملک کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ملک کا حصہ مان کر چل رہے تھے وہیں برہمن ذہنیت کی حامل راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) جیسی تنظیم جس میں اب بجرنگ دل اور نہ جانے کتنی تنظیمی شامل ہوچکی ہیں اورجس کا ایک حصہ موجودہ حکومت بھی ہے ، مذہبی کی بنیاد پر نفرت کے کھیل کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کررہی ہے ۔
اس موقع پر سینئر وکیل مہیر دیسائی نے کہا کہ ’’ نسلی کشی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سبھی کو قتل کر دیا جائے ۔بھگوا داھاریوں نے نسلی کشی کیلئے ایک ہتھیار سی اے اے اور این آر سی کی شکل میں لایا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی تمام شہری آزادی سلب کر دی جائے اور بنیادی حقوق کو ختم کر دیا جائے ۔ میرے نزدیک نسل کشی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا جھوٹا الزام لگایا جائے اور آپ کو جیلوں میں ڈال دیا جائے ۔ ‘‘سمینار میں موٹیویشنل اسپیکر عادل کھوت نے بھی بھگوا دھاریوں کے ذریعہ نسلی کشی کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی۔اس موقع پر سلسلہ وار بم دھماکوں کے کیس سے بری ہونے والے عبد الواحدشیخ نے شاہد اعظمی میموریل کے زیر اہتمام منعقدہ پروگرام کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور۱۲؍ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود مرحوم وکیل شاہداعظمی اور ان کے اہل خانہ کو انصاف نہ ملنے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ۱۰۰؍ سے زائد گواہوں میں سے صرف ۸؍ کے بیانات درج ہوئے ہیں جبکہ ۴؍ ملزمین میں سے ۲؍ کو ضمانت پر رہا ئی مل چکی ہے۔