EPAPER
Updated: October 07, 2021, 8:26 AM IST | Washington
کمپنی کی سابق ملازمہ فرانسس ہوگن کی امریکی کانگریس میں پیشی۔ سارے ثبوتوں کے ساتھ خاتون نے الزام لگایا کہ فیس بک منافرت پھیلانے والی پوسٹ صرف اس لئے ڈیلیٹ نہیں کرتا کہ اس کی وجہ سے صارفین کی سرگرمیاں کم ہو جائیں گی اور اس کے منافع میں کمی آجائے گی۔ جانبداری کا بھی الزام
بک کی ایک سابق عہدیدار فرانسس ہوگن کا کہنا ہے کہ فیس بک کی بیشتر پوسٹ جمہوریت اور خاص کر بچوں کیلئے نقصاندہ ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ فیس بک منافع کمانے کیلئے اشتعال انگیزی کو فروغ دیتا ہے۔ واضح رہے کہ فرانسس ہوگن کچھ عرصہ پہلے تک فیس بک ہی میں کام کرتی تھیں۔ وہاں انہوں نے یہ محسوس کیا کہ فیس بک اشتعال انگیزی اور گمراہ کن خبروں کو روک سکتا ہے مگر وہ ایسا نہیں کرتا کیونکہ اس سے اس پلیٹ فارم پر صارفین کی سرگرمیاں کم ہو جائیں گی۔
سارے ثبوت اکٹھا کرنے کے بعد فرانسس نے فیس بک کی ملازمت ترک کردی اور امریکی حکام سے رابطہ کیا تا کہ وہ اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ٖغلط استعمال کا پردہ فاش کر سکیں ۔ گزشتہ اتوار کو جس دن فیس بک اور واٹس ایپ اچانک بند ہو گیا تھا اس سے ٹھیک ایک دن پہلے انہوں نے ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہی سارے الزام لگائے تھے جس کے بعد انہیں امریکی کانگریس میں پیش ہو کر اپنی بات کہنے کی اجازت دی گئی۔ منگل کو وہ امریکی سینیٹ کمیٹی کے سامنے حاضر ہوئیں اور انہوں نے وہ شواہد پیش کئے جو انہوں نے دوران ملازمت فیس بک کے دفتر سے حاصل کئے تھے۔
فیس بک پر پروڈکٹ مینیجر کے عہدے پر کام کر چکیں فرانسس ہوگن کا کہنا ہے کہ فیس بک کو معلوم ہو چکا ہے کہ لوگوں کے غصے کو ابھار کر ان کو اپنے پیچ پر زیادہ دیر تک روکا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے ان کےمنافع میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ منافرت والے مواد کی تشہیر سے معاشرے کو نقصان پہنچ رہا ہے وہ منافع کمانے کیلئے اس مواد کو ہٹاتے نہیں ہیں۔ انسٹا گرام جو کہ فیس بک ہی کی ملکیت ہے ،اس کے تعلق سے فرانسس ہوگن کے الزامات بہت سنگین ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فیس بک کی اپنی ریسرچ کے مطابق انسٹا گرام پلیٹ فارم نوجوانوں کی ذہنیت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے ۔انھوں نے بتایا کہ فیس بک کی اپنی ریسرچ کے مطابق ۲۰؍برس سے کم عمر کی ۱۳؍ فیصد لڑکیوں نے کہا ہے کہ انسٹاگرام کو استعمال کرنے کی وجہ سے ان میں خود کشی کے رجحانات جنم لیتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ یہ بات ریسرچ سے ثابت ہے کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم نوجوانوں میں ذہنی دباؤ کی ایک وجہ ہیں۔ انسٹا گرام پر جہاں لوگ اپنی تصاویر پوسٹ کرتے ہیں اس سے لوگوں میں اپنی جسامت کے حوالے منفی خیالات جنم لیتے ہیں۔
فرانسس ہوگن نے فیس بک پر جانبداری کا الزام بھی لگایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فیس بک مختلف طبقوں کے ساتھ پالیسی کے معاملے میں الگ الگ برتائو کرتا ہے۔ سیاستدانوں ، اور مشہور شخصیات کے ساتھ اس کا برتائو الگ ہوتا ہے اور عوام کے ساتھ الگ۔ انہوں نے امریکی کانگریس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فیس بک پر نظر رکھیں اور اسے منافرت پھیلانے سے روکے۔ ورنہ یہ کمپنی اپنے منافع کی خاطر اشتعال انگیزی کو فروغ دیتی رہے گی۔ حالانکہ فیس بک نے فرانسس کے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے یہاں ۴۰؍ ہزار ملازمین اس بات پر مامور ہیں کہ وہ اشتعال انگیز پوسٹ کو پلیٹ فارم سے ہٹادیں لیکن فیس بک کی جانبداری کئی بار سامنے آئی ہے۔ خاص کر حماس اور اسرائیل کی جنگ کے دوران صارفین نے شکایت کی تھی کہ وہ اسرائیل کے مظالم والی پوسٹ ڈیلیٹ کر دیتا ہے جبکہ حماس کے خلاف ڈالی گئی پوسٹ کو پرموٹ کرتا ہے۔