EPAPER
Updated: March 15, 2021, 10:29 AM IST
| Editorial
یشونت سنہا بزرگ اور تجربہ کار سیاستداں ہیں۔ اُن کا ترنمول کانگریس میں شامل ہونا کوئی وقتی یا جذباتی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ اس فیصلے کے تعلق سے کچھ وضاحت تو اُنہوں نے کی ہے اور کچھ ، تھوڑے بہت غوروفکر سے ممکن ہے۔ یشونت سنہا بزرگ اور تجربہ کار سیاستداں ہیں۔ اُن کا ترنمول کانگریس میں شامل ہونا کوئی وقتی یا جذباتی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ اس فیصلے کے تعلق سے کچھ وضاحت تو اُنہوں نے کی ہے اور کچھ ، تھوڑے بہت غوروفکر سے ممکن ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ممتا پر ہونے والے حملے نے اُنہیں ترنمول میں شمولیت کی ترغیب دی۔ ممکن ہے یہ فوری وجہ بنی ہو مگر اس سے پہلے ایسے کسی فیصلے کے بارے میں سوچا نہ گیا ہو ایسا نہیں ہوسکتا۔
بی جے پی کے خلاف، سب کو ساتھ لے کر چلنے والے کسی بڑے سیاسی اتحاد کی ضرورت یشونت سنہا بہت پہلے سے محسوس کررہے ہوں گے۔ ملک کے عوام بالخصوص غیر بی جے پی رائے دہندگان کی طرح اُنہیں بھی کانگریس سے اُمید رہی ہوگی کہ اُس نے بھلے ہی ۲۰۱۴ء میں شکست کھائی، مگر یہ متبادل سیاست کا سب سے بڑا چہرا بن کر اُبھرے گی کیونکہ اس نے کم و بیش ۵۵؍ سال ملک کی قیادت کی ہے۔ مگر یہ نہیں ہوا۔ اس کے باوجود اُنہوں نے شک کا فائدہ دیا ہوگا کہ چلئے ۲۰۱۴ء میں نہیں تو ۲۰۱۹ء میں کانگریس متبادل سیاست کو کامیابی سے ہمکنار کرے گی۔ یہ بھی نہیں ہوا۔ کانگریس کو ۲۰۱۹ء میں بھی شرمناک شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کے بعد بھی ڈیڑھ سال گزر چکا اور کانگریس اس قابل نہیں ہوسکی کہ قومی سیاست میں پائے جانے والے خلاء کو پُر کرسکے۔ یشونت سنہا جو بی جے پی ہی کی صف سے آئے ہیں، موجودہ بی جے پی کی پالیسیوں سے سخت نالاں ہیں۔ کانگریس سے وابستہ کی جانے والی اُمید پوری نہ ہونے کی صورت میں اُنہوں نے کسی اور پارٹی کو متبادل قومی سیاست کیلئے منتخب کرنا چاہا ہوگا۔ ممکن ہے ممتا بنرجی میں اُنہیں ایک نڈر، بے باک، دھن کا پکا اور قومی سطح پر قابل قبول چہرا دکھائی دیا ہوگا اسی لئے انہوں نے یہ طے کیا ہوگا کہ جب بھی موقع ملے گا وہ ممتا بنرجی کو مرکزیت عطا کرتے ہوئے ایک ایسی متبادل سیاست کی بناء ڈالیں گے جس کیلئے اگر اُنہیں خود اپنی سیناریٹی کی قربانی دینی پڑے تو وہ اس میں تامل نہیں کریں گے۔
ممتا اس قابل ہیں کہ اُنہیں وہ مرکزیت حاصل ہو جو ہمارے خیال میں یشونت سنہا کے پیش نظر رہی ہوگی۔ اُن کی سیاست میں اور بی جے پی کو شکست دینے کے عزم میں وہ دم خم ہے کہ کئی علاقائی پارٹیاں اُن کی حمایت کررہی ہیں جن میں وہ بھی ہیں جن کا کانگریس سے اتحاد ہے مثلاً آر جے ڈی جس کی قیادت میں جاری مہا گٹھ بندھن میں کانگریس حصہ دار ہے۔ اسی طرح شیوسینا، مہاراشٹر میں جس کی حکومت میں کانگریس بھی شریک ہے۔ دیگر پارٹیاں بھی جو کانگریس کی حلیف تو نہیں ہیں مگر وہ بھی ممتا کو سپورٹ کررہی ہیں جیسے عام آدمی پارٹی اور سماج وادی پارٹی۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا شاید غلط نہ ہو کہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ایسا سیاسی اتحاد تشکیل پارہا ہے جس میں ممتا کو مرکزیت حاصل ہوگی۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بنگال میں بی جے پی کو شکست دینے کے عزم کے ساتھ ساتھ ۲۰۲۴ء کی تیاری بھی ہے؟یہ کہنا قبل ازوقت ہے اور اِس وقت بھی ہرگز نہ کہا جاتا مگر یشونت سنہا کے فیصلے سے اس گمان کو تقویت ملتی ہے ورنہ سابق مرکزی وزیر ترنمول میں کیوں جاتے کہ نہ تو ان کا تعلق بنگال سے ہے نہ ہی وہ عمر کے اُس حصے میں ہیں کہ فعال عملی سیاست کو ترجیح دیں۔ بہرحال اُن کی اس اعلیٰ ظرفی کی داد دینی چاہئے کہ ایک بڑے کاز کیلئے، سیاست میں اپنے سینئر ہونے کے احساس کو بالائے طاق رکھا اور شاید بہت کچھ سوچ کر یہ فیصلہ کیا۔