Inquilab Logo Happiest Places to Work

یوپی اور کانگریس

Updated: February 05, 2022, 2:16 PM IST

اُترپردیش کی انتخابی جنگ میں کانگریس کسی شماروقطار میں نہیں ہے۔ کوئی اس پر گفتگو کررہا ہے نہ ہی اسے، اس قابل سمجھ رہا ہے کہ یوپی کے منظرنامے پر تلاش کرے یا اس کے امکانات سے بحث کرے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

اُترپردیش کی انتخابی جنگ میں کانگریس کسی شماروقطار میں نہیں ہے۔ کوئی اس پر گفتگو کررہا ہے نہ ہی اسے، اس قابل سمجھ رہا ہے کہ یوپی کے منظرنامے پر تلاش کرے یا اس کے امکانات سے بحث کرے۔ یہ وہ پارٹی ہے جس نے مختصر وقفے کے علاوہ اس ریاست پر تسلسل کے ساتھ ۱۹۸۸ء تک حکومت کی ہے۔ اس کے آخری وزیر اعلیٰ نارائن دت تیواری تھے۔ اُن کے بعد یوپی کو کانگریسی وزیر اعلیٰ نہیں ملا۔ ۲۰۱۷ء میں یہ پارٹی صرف ۷؍ سیٹیں جیت سکی تھی اور اس کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کا فیصد ۵ء۴؍ تھا۔ ظاہر ہے کہ اتنے کم ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی نے اگر بہت زور مارا اور اپنے ووٹوں میں دوایک فیصد کا اضافہ کرلیا تب بھی کیا ہوگا؟ یقیناً کوئی بڑی اور قابل ذکر بات نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس، جو ۲۰۱۷ء کے نتائج کی تختی پر چوتھے نمبر پر تھی، اب بھی اُسی مقام پر دیکھی جارہی ہے۔ اتنی بڑی پارٹی، جس نے ریاست تو کیا مرکز پر بھی طویل عرصہ بلاشرکت غیرے حکومت کی ہے، اس حال کو پہنچ جائے تو یہ افسوسناک ہے۔ ایسا کیوں ہوا، اس سوال کے جواب سے اکثر لوگ واقف ہیں، اس لئے اس سے بحث نہیں، البتہ نیا سوال یہ ہے کہ کیا اس مرتبہ سابقہ تین انتخابات (دو لوک سبھا اور ایک اسمبلی) کے مقابلے میں زیادہ سرگرم دکھائی دینے والی کانگریس کوئی کارنامہ انجام دے سکے گی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ بالخصوص پرینکا گاندھی کی فعالیت کے سبب کانگریس کے تعلق سے مبصرین اور عوام کی رائے بہتر تو ہوئی ہے مگر شاید ہی کوئی ہو جو اس کی نمایاں کارکردگی کی توقع کررہا ہو۔ مگر ایک بات توجہ طلب ہے کہ کانگریس کچھ نئے آئیڈیاز کے ساتھ میدان میں ہے۔ اس نے خواتین کیلئے الگ انتخابی منشور ’’شکتی وِدھان‘‘ اور نوجوانوں کیلئے الگ منشور ’’بھارتیہ وِدھان‘‘ جاری کیا ہے۔ اس نے خواتین کو ۴۰؍ فیصد سیٹیں دے کر بھی نئی روایت قائم کی ہے جس کی داغ بیل  ہرچند کہ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی نے ڈالی مگر اسے منظم اور منضبط کانگریس نے یوپی میں کیا۔ خواتین کو ۴۰؍ فیصد ٹکٹ دینا آسان نہیں۔ جب پرینکا نے یہ اعلان کیا تھا تب بہت سے لوگ اسے ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے کہ انہیں تو اُمیدواروں کا ملنا مشکل ہوجائیگا مگر یوپی کانگریس کی تیاری شاید بہت پہلے سے تھی۔ اس نے نئے چہروں اور نئی صلاحیتوں کو نہ صرف تلاش کیا بلکہ اُن پر اعتماد کیا۔ ہمارے سماج میں انتخابی سیاست اس مفروضے پر کام کرتی ہے کہ خواتین میں الیکشن جیتنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ۴۰؍ فیصد ٹکٹ کیلئے آمادہ ہونا اور پھر اتنے اُمیدوار تلاش کرنا یقیناً بڑا کام تھا جو کانگریس نے کیا ہے۔ اسے رائے دہندگان کی کتنی زیادہ یا کتنی کم حمایت حاصل ہوگی یہ تو ۱۰؍ مارچ ہی کو واضح ہوسکے گا مگر یہ اچھی شروعات ہے، کانگریس کو یہ فارمولہ دیگر ریاستوں میں بھی نافذ کرنا چاہئے۔  کانگریس نے خواتین کیلئے علاحدہ منشور جاری کرکے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی ہے کہ اس کے لیڈروں اور کارکنان کو یوپی کی خواتین کے مسائل سے آگاہی ہے۔ اس کوشش کے ذریعہ پارٹی ’’جعلی مسائل اور حقیقی  مسائل‘‘ کے درمیان واضح خط کھینچ رہی ہے۔خواتین کے خلاف جرائم میں یوپی کا کیا حال ہے، یہ سب پر واضح ہے۔ بے روزگاری کے سبب نوجوانوں میں کتنی ہاہاکار مچی ہوئی ہے اس کی اطلاع بھی سب کو ہے۔ اس نقطۂ نظر سے شکتی ودھان اور بھارتیہ ودھان، اور اس حوالے سے کانگریس کی نئی پیش رفت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK