EPAPER
Updated: January 30, 2022, 10:26 AM IST | Aakar Patel | Mumbai
ان تین انتخابات میں بی جے پی نے کامیابی کا نیا معیار مقرر کیا۔ ۲۰۱۲ء میں صرف ۱۵؍ فیصد ووٹ حاصل کرنے والی یہ پارٹی ۲۰۱۹ء میں پچاس فیصد ووٹوں پر قابض ہوگئی تھی۔ مگر، اب کیا؟
مَیں اِدھر کچھ عرصے سے یوپی نہیں گیا اس لئے جو کچھ بھی کہنے جارہا ہوں وہ ایسا نہیں کہ جس کا تعلق تازہ صورت حال سے ہو یا ذاتی تجربات پر مبنی ہو۔ تاہم یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ریاست کے رائے دہندگان کا گزشتہ چند برسوں کا ووٹنگ رجحان کیا تھا تاکہ یہ سمجھنے میں مدد ملے کہ ۱۰؍ فروری سے شروع ہونے والے الیکشن میں کیا امکانات ہیں۔
۲۰۱۲ء میں سماج وادی پارٹی نے اس ریاست میں مکمل اکثریت حاصل کی تھی۔ اسے ۲۹؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ اہم بات یہ تھی کہ دوسرے مقام پر جو پارٹی تھی وہ بی جے پی نہیں، بی ایس پی تھی۔ اس کے حصے میں ۲۶؍ فیصد ووٹ آئے تھے۔بی جے پی کو، جس کی قیادت اُس وقت اوما بھارتی کررہی تھیں، صرف ۱۵؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ دو سال بعد، ۲۰۱۴ء میں بی جے پی کی کارکردگی میں چار چاند لگ گئے، اس کے حصے میں آنے والے ووٹوں کا فیصد (اپنا دل کی شراکت سے) ۴۲؍فیصد ہوگیا تھا۔ اپنا دل کی شراکت کے بغیر بھی یہ فیصد ۴۰؍ تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑی جست تھی۔
اس غیر معمولی کامیابی کے دو اسباب بتائے جاسکتے ہیں۔ پہلا سبب نریندر مودی کی شخصیت کی کشش جس نے ان کی پارٹی کیلئے کرشماتی کردار ادا کیا۔ دوسرا سبب مغربی یوپی کا فرقہ وارانہ تشدد تھا۔ اگست اور ستمبر ۲۰۱۳ء میں مظفرنگر اور شاملی میں تشدد کے کئی واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے سماج میں تفرقہ پڑگیا اور ووٹوں کا بڑے پیمانے پر ارتکاز (پولرائزیشن) ہوا۔ ان واقعات کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو ریلیف کیمپوں میں پناہ لینی پڑی تھی۔ پناہ گزینوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ان واقعات کی وجہ سے سماج میں پڑنے والی دراڑ کافی عرصہ برقرار رہی جس کابی جے پی کو ۲۰۱۴ء کے لوک سبھاالیکشن میں بھی اور ۲۰۱۷ء کے اسمبلی الیکشن میں بھی فائدہ ہوا ۔ مارچ ۲۰۱۷ء میں اخبار ’’دی ہندو‘‘ نے لکھا تھا کہ بی جے پی،جاٹ ووٹوں میں پھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہوئی اور جو ووٹ لوک دل کو جاتے تھے، اُن پر قابض ہوگئی۔ دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، جاٹ برادری سے کہا گیا تھا کہ ’’جو ووٹ بی جے پی کے خلاف یعنی بی جے پی کے علاوہ کسی پارٹی کو دیا جائیگا وہ یوپی میں مسلمانوں کی حکومت بنانے میں معاون ہوگا۔‘‘ رپورٹ کے مطابق، جاٹ لیڈرشپ سے امیت شاہ کی ملاقات کی ایک ویڈیو کا، جو بہت سوچ سمجھ کر افشا کی گئی تھی، جاٹ برادری پر کافی اثر ہوا۔ اس کی وجہ سے برادری خوفزدہ ہوئی اور کم از کم نصف ووٹ بی جے پی کے پالے میں چلے گئے۔ اس کے علاوہ ہندو ووٹ (بلاتفریق طبقات) بہت واضح طور پر بی جے پی کو ملے۔‘‘
اس طرح بی جے پی نے اُترپردیش جیتا۔ اب بھی اسے ۴۰؍ فیصد ووٹ ملے۔نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اُس وقت کے معاشی حالات کے باوجود بی جے پی سرخرو ہوئی تھی۔ فروری ۲۰۱۷ء میں ہونے والی پولنگ نومبر ۱۶ء کی نوٹ بندی کے محض دو ڈھائی ماہ بعد ہوئی تھی۔ نوٹ بندی کی وجہ سے ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ بالخصوص انتہائی غریب لوگ بے حد پریشان تھے۔ اس کے باوجود بی جے پی کی کارکردگی پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔
دلچسپ بات اُن انتخابات کی یہ تھی کہ سماج وادی پارٹی کے حصے میں جو پولنگ فیصد آنا تھا، وہ اس نے برقرار رکھا جو ۲۹؍ فیصد تھا البتہ بی ایس پی نے اپنا ووٹنگ فیصد گنوایا۔ ۲۰۱۹ء میں ایس پی اور بی ایس پی متحد ہوئے۔ اُس وقت قیاس کیا جارہا تھا کہ یہ اتحاد بی جے پی کو سخت آزمائش میں مبتلا کرے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ بی جے پی کا پولنگ فیصد مزید بڑھ گیا اور ۵۰؍ فیصد تک پہنچ گیا۔ پارٹی کو اس الیکشن میں بھی غیر معمولی کامیابی ملی۔ اس مرتبہ جس چیز کا فائدہ پارٹی کو ہوا وہ ہندوستان کا پاکستان پر سرجیکل اسٹرائک تھا۔ بالاکوٹ پر ہونے والا یہ اسٹرائک فروری کے اواخر میں کیا گیا تھا ۔
اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ووٹوں کا فرقہ وارانہ خطوط پر ارتکاز (پولرائزیشن) بی جے پی کی کتنی مدد کرتا ہے۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ نے ۲۸؍ جنوری کو بی جے پی کے مخالفین کیلئے یہ ٹویٹ کیا تھا: ’’وہ جناح کے حامی ہیں، ہم سردار پٹیل کے۔اُن کیلئے پاکستان اہم ہے، ہمیں ماں بھارتی عزیز ہے۔‘‘
اس سے ایک روز پہلے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا: ’’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستان کے بانی جناح کا نام انتخابات کے دوران کیوں اُبھارا جاتا ہے۔ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہئے، اس سے بہتر ہے کہ ہم گنا کسانو ں کی بات کریں۔‘‘
بی جے پی کے لیڈران جناح، پاکستان اور مسلمانوں کو اس لئے موضوع بناتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ماضی میں اُنہیں فائدہ ملا تھا۔ اسی لئے، انتخابات میں جناح اور پاکستان یا مسلمان کا موضوع بننا جاری رہے گا، یہ ختم نہیں ہوسکتا۔
موٹے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یوپی پر غلبہ حاصل کرنے کیلئے بی جے پی کو ماضی کے تین انتخابات میں حاصل ہونے والا پولنگ فیصد ازسرنو حاصل کرنا پڑے گا۔ جہاں تک سماج وادی پارٹی کا تعلق ہے، غالب امکان اس بات کا ہے کہ اس کے پولنگ فیصد میں ریکارڈ اضافہ ہو مگر یہ کہنا اب بھی مشکل ہے کہ کیا سماج وادی کی شاندار کامیابی بی جے پی کو روک سکے گی۔ ایک بار پھر واضح کردوں کہ یہ بات مَیں یوپی کے زمینی حقائق کی بنیاد پر نہیں بلکہ سابقہ ووٹوں کی حصہ داری کو سامنے رکھ کر کہہ رہا ہوں۔
ویسے، ماضی کے ووٹنگ فیصد کے علاوہ چند خارجی محرکات کا سامنے رکھنا بھی ضروری ہوگا۔ ان میں سے ایک ہے کسانوں کا احتجاج جو ایک سال تک جاری رہا اور نومبر ۲۰۲۱ء میں اُس وقت ختم ہوا جب مرکزی حکومت نے متنازع زرعی بل واپس لئے۔ دوسرا محرک ہے ملازمتوں کیلئے تقرری نہ ہونے کے خلاف نوجوانوں کا احتجاج جو اِس وقت جاری ہے۔ تیسرا محرک کووڈ کی دوسری لہر کے دوران گنگا میں لاشوں کے بہنے اور آکسیجن کیلئے مچنے والی ہاہاکار ہے۔ دیکھنا یہ ہوگاکہ کیا یہ تمام حقائق ووٹوں کے فرقہ وارانہ ارتکاز کے سامنے بے معنی ہوجائینگے؟ n