EPAPER
Updated: January 29, 2022, 1:42 PM IST | Raeesa Munawar | Mumbai
خاندان میں ایک دوسرے کیلئے فکر مندی ، دیکھ بھال اور تعلیم، رہائش اور خوراک کی امداد، اور جسمانی اور ذہنی صحت کی دیکھ بھال بچوں کی فلاح و بہبود میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔
’’صحت‘‘ ایک بہت ہی وسیع تر موضوع ہے ۔ عام طور سے ہمارے معاشرے میںصحت سے مراد صرف یہ لیا جاتا ہے کہ گھر کے افراد میں یا عزیز و اقارب میں سے کوئی بیمار نہیں ہے ، اُسے بخار یا سردرد وغیرہ نہیں ہے۔ اور اسے ہی ’’صحت‘‘ سمجھ لیا جاتا ہے۔ لیکن ’’صحت‘‘ کے موضوع نے گزشتہ دو برسوں سے معاشرے میں بڑی حد تک بیداری پیدا کردی ہے۔ بچوں سے لے کر بڑوں تک اور جوانوں سے لے کر بوڑھوں تک ، ہر کوئی ’’صحت‘‘ کو ایک نئے پیرائے میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کررہا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ معاشرے کا نصف حصہ یعنی خواتین ، اس اہم مسئلے سے لاتعلق رہیں ۔ دیکھا جائے تو درحقیقت یہ خواتین ہی ہوتی ہیں جن کے دم سے معاشرے میں ’’صحت‘‘ یا ’’عدم صحت‘‘ کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک خاتون ِ خانہ ، اگر اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھتی ہے، کھانے پینے میں غذائیت کا خیال رکھتی ہے ، ماحول کو خوشگوار رکھتی ہے اور اس کے دیگر تمام امور میں بھی سلیقہ نظر آتا ہے ، تو اس سے نہ صرف اُس کے اپنے گھر کے اندر بلکہ اطراف میں بھی صحتمند اور خوشگوارتاثر پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح صحت مند معاشرہ کی تشکیل میں بھی خواتین کا اہم کردار ہوتا ہے۔ صحت مند معاشرے کی وجہ سے جہاں ایک طمانیت کا احساس ہوتا ہے وہیں معاشرے کا ہر فرد بھی اپنی دفتری اور دیگر ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی ادا کرتا ہے اور اس طرح معاشرہ ترقی کی سمت میں گامزن رہتا ہے۔ کووڈ۔۱۹؍ کے بعد کے منظرنامے پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں صحت اور اس سے متعلق دیگر امور پر لوگوں کی توجہ زیادہ ہوگئی ہے ۔ گھر میں سب کے ساتھ ہوں ، دوست واحباب کی محفل میں ہوں یا کام کی جگہوں پر، ہر کوئی ’صحت مند ماحول‘ کی خواہش کرتا ہے۔ بڑے تو اپنی مدد آپ کے ذریعے ماحول کو سمجھ لیتے ہیں اور اس کے مطابق احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں، لیکن بچوں کو سنبھالنے اور ان کو صحتمند ماحول دینے کے لئے خواتین کو ہی آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ صحت کے تئیںبیداری کے ماحول کو ایک چھوٹی سے مثال کے ساتھ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک بچہ ، جب پہلے کھیل کود کر یا اسکول سے گھر واپس آتا تھا تو اسے ہاتھ پاؤں دھونے پر اتنا اصرار نہیں کیا جاتا تھا جتنا کہ آج اس کے گھر میں داخل ہونے کے ساتھ ہی کیا جانے لگا ہے ۔ اسکول جانے سے قبل بچے کو گھر کا کھانا ، پانی ، ماسک اور سینیٹائزر وغیرہ دینا ، یہ سب بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن ان کے پیچھے ایک بڑا مقصد صحت کا ہوتا ہے۔ اس صحت کو صحتمند رکھنے کا سہرا جس کے سر جاتا ہے، وہ گھر کی خاتون ہوتی ہے۔ گھر سے باہر نکل کر ذرا وسیع پیمانے پر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کورونا وبا کے دوران ، یہ خواتین کا ہی حوصلہ تھا جس نے گھروں کو صحتمند رکھنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ سال گزشتہ مارچ میں جب اقوامِ متحدہ نے عالمی یومِ خواتین منایا تو خواتین کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اور اس دن کو خواتین سے منسوب کرتے ہوئے ’’ وبا والی دنیا میں مساوی مستقبل کے حصول کے لئے کوشاں خواتین قیادت ‘‘ لکھا تھا۔ اس کی مذکورہ وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وبائی دَور میں صرف گھروں میں ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور جن ممالک کی باگ ڈور خواتین کے ہاتھوں میں تھی انہوں نے اپنے ملکوں میں وبا سے نمٹنے میں بہت جلد کامیابی حاصل کی تھی۔ ایک تحقیق کے مطابق ان ممالک میں جہاں خواتین حکمران تھیں وہاں کورونا کے معاملات اور اموات کی تعداد دیگر ممالک سے کم تھی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ خواتین میں کچھ سیکھنے، دوسروں کو تحریک دینے اور ایمانداری اور محنت سے کام کرنے کا جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ وہ حساس بھی ہوتی ہیں ، چنانچہ بیماری کی سنگینی کو جتنا انہوں نے محسوس کیا، اسی کے مطابق صحت کے اصولوں پر بھی کام کیا اور بہتر نتائج دکھائے۔ یو این ویمن کے مطابق ڈنمارک، ایتھوپیا، فن لینڈ، جرمنی، آئس لینڈ، نیوزی لینڈ اور سلوواکیہ کی خواتین سربراہان حکومت نے جس موثر طریقے سے کورونا کی وبا سے نمٹا ، اسے دنیا بھر میں سراہا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین کی قیادت کا اسٹائل انفرادی سے زیادہ اشتراکی تھا۔عورتیں مسابقت سے زیادہ شراکت اور حکم چلانے سے زیادہ سکھانے میں یقین رکھتی ہیں۔ صحت مند معاشرے اور خاندان کیلئے خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں فیصلہ سازی کا مساوی حق دیا جانا چاہئے ۔ جہاں اس پر عمل ہوتا ہے ، وہاں کا طرز ِ زندگی اس کا ثبوت ہوتا ہے ۔ خواتین کے لئے اپنے کام (اگر وہ برسرروزگار ہوں) اور گھریلو زندگی میں توازن پیدا کرنا ضروری ہے جو آسان نہیں ہوتا۔ وبائی دور میں بے یقینی کے سے حالات اور اس کی وجہ سے سر اٹھانے والے بے شمار مسائل ایسے ہیں جن کا تعلق کہیں نہ کہیں صحت کے زمرے میں آجاتا ہے۔ اسی وجہ سے کچھ اصطلاحیں بھی عام ہوئی ہیں جن میں سے ایک Wellbeing ہے۔ یہ تعریف میں وسیع ہے اور اسے کسی ایک لفظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ کیمبرج انگلش ڈکشنری نے اسے ’’صحت مند اور خوشی محسوس کرنے کی حالت‘‘ کے طور پر بیان کیا ہے اور سائیکالوجی ٹوڈے نامی میگزین میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تندرستی صحت، خوشی اور خوشحالی کا تجربہ ہے۔ اس میں اچھی ذہنی صحت، اعلیٰ زندگی کا اطمینان، معنی یا مقصد کا احساس، اور تناؤ پر قابو پانے کی صلاحیت شامل ہے۔ خاندان کی فلاح و بہبود اس وقت ہوتی ہے جب خاندان کے تمام افراد محفوظ اور صحت مند ہوں، اور تعلیمی ترقی اور بہتر معاش کے امکانات ہوں۔ خاندان میں ایک دوسرے کے لئے فکر مندی ، دیکھ بھال اور تعلیم، رہائش اور خوراک کی امداد، اور جسمانی اور ذہنی صحت کی دیکھ بھال بچوں کی فلاح و بہبود میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ جب خاندانوں کو ایسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو تناؤ کا سبب بنتے ہیں، بشمول غربت اور بے گھری، تو ان کی صحت اور تندرستی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ اس کے برعکس جب خاندان صحت مند، محفوظ اور معاشی طور پر مستحکم ہوتے ہیں، تو ان کے بچوں کی صحت اور تندرستی پروان چڑھ سکتی ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ وبائی دَور نے خاندان ، صحت اور فلاح و بہبود کے معنی و مطلب کو ہر ایک پر واضح کردیا ہے۔ بیشتر گھر وںیا خاندانوں میں مرد چونکہ تلاش معاش میں گھر سے باہر چلے جاتے ہیں اس لئے بچوں کی پرورش سے لے کر ماحول کی بہتری تک ، ہر محاذ پر خواتین کو آگے رہنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں صحت سے متعلق فکر مندی نے خواتین کو مزید محتاط ہی نہیں، فکرمند بھی بنادیا ہے کہ ان کے گھر کا ہر فرد ذہنی اور جسمانی طورپر صحت مند رہے اور اسے بہتر ماحول ملے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب پکنک پر جانا بھی عام ہورہا ہے کہ اس طرح کھلی ہوا میں کچھ وقت گزار لیا جائے، شاپنگ بھی کی جاتی ہے ، لیکن یہاں بھی صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے کہ کون سا پروڈکٹ صحت کے لئے مفید ہوگا ، اس میں اب ورزشی آلات بھی خریدے جارہے ہیں ، ہوٹل میں کھانا بھی کھایا جاتا ہے لیکن ہوٹل کے انتخاب میں بھی اس بات کا اب خصوصی خیال رکھا جاتا ہے کہ ہوٹل معیاری ہی نہیں بلکہ اعلیٰ معیاری ہو ،اس کے علاوہ اہلِ خانہ کے ساتھ کچھ وقت باہر گزارنے کا جیسے ساحل یا پارک میں، بھی رجحان نظر آتا ہے ۔ ان سب کے پیچھے وہ ہستی ہوتی ہے، جو پہلے صرف خاتونِ خانہ ہوا کرتی تھی۔ اب اس نے ’خانہ‘ سے نکل کر ’خاندان‘ تک کو اس طرح سمیٹ لیا ہے کہ کوئی وبا ، اس کے خاندان کو نقصان نہ پہنچائے ۔