Inquilab Logo Happiest Places to Work

مقصد ِ تعلیم اور اس کی تکمیل

Updated: December 12, 2021, 9:13 AM IST | Mumbai

حکیم اجمل خاں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے جلسہ ٔ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’حقیقی تعلیم اس کوشش کا نام ہے

The Purpose Of Education And Its Fulfillment
مقصد ِ تعلیم اور اس کی تکمیل

حکیم اجمل خاں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے جلسہ ٔ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’حقیقی تعلیم اس کوشش کا نام ہے جو فردو جماعت کے متضاد اغراض کی اس طرح آمیزش کرے اور شخصی حقوق اور ملی ّ فرائض میں ایسا امتزاج پیدا کردے کہ اگر چہ انفرادی نشوونما بدرجۂ اتم ممکن ہو لیکن اس نشوونما کا مقصد ملت کے مقاصد اور اس کا نصب العین قرار دیا جائے۔‘‘ حکیم صاحب نے جو کہا وہ تو تعلیم کی بہت اعلیٰ و ارفع تشریح ہے، موجودہ دور وہاں تک پہنچنے سے قاصر ہےمگر تعلیم کا جو واجبی مقصد سمجھ میں آسکتا ہے، یہ دَور اس سے بھی دُور ہوگیا ہے۔ رفتہ رفتہ تعلیم کو حصول روزگار کا ذریعہ سمجھ لیا گیا اور اب انہی معنوں میں تسلیم کرلیا گیا ہے۔ ہماری نظر میں حصو ل روزگار مقصد تعلیم کا ایک زاویہ تو ہوسکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ 
 مشہور امریکی فلاسفر جون ڈیوی نے کہا تھا کہ تعلیم، زندگی کی تیاری نہیں بلکہ بذات خود زندگی ہے۔ ہم نے اس کا یہ مفہوم اخذ کیاکہ زندگی کی تیاری ایک حد تک ممکن نہیں بلکہ انسان زندگی بھر زندگی کی تیاری کرتا رہتا ہے کیونکہ مثالی طور پر جینا تو کسی کسی ہی کے حصے میں آتا ہے، باقی سب تو بہتر زندگی جینے کی تگ و دَو کرتے ہیں اور اسی تگ و دو میں زندگی کی شام ہوجاتی ہے۔ دوسرا مفہوم: تعلیم بذات خود      زندگی اس لئے ہے کہ زندگی کے ہر دور میں انسان حصول علم کا محتاج ہوتا ہے۔ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے مکمل علم حاصل کرلیا ہے۔ دراصل زندگی سیکھتے سکھاتے رہنے کا عمل ہے۔ آپ بظاہر کوئی بات یا کوئی چیز سیکھ نہ رہے ہوں مگر بباطن یہ عمل جاری رہتا ہے۔ سیکھنے سے مراد کتاب لے کر بیٹھنا ، پڑھنا اور اس طرح سیکھنا نہیں ہے بلکہ سیکھنے سے مراد یہ بھی ہے کہ انسان اپنے کسی علم کی تجدید، اپنے فہم کی اصلاح اور اپنے خیال کی توثیق یا تنسیخ کرے۔انسان جب کچھ نہ سیکھ رہا ہوتا ہے تب بھی کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے۔یہ کام غیر دانستہ طور پر بھی ہوتا ہے مگر بہتر ہے کہ دانستہ ہو یعنی انسان کو خیال رہے کہ وہ فلاں چیز سیکھ رہا ہے، اپنی اصلاح کررہا ہے، اپنی نشوونما کررہا ہے اور خود کو فیض پہنچا رہا ہے۔ 
 تعلیم کو محض درسی کتب تک بھی محدود نہیں کرنا چاہئے۔ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو، خواہ وہ اسکول کی تعلیم حاصل کررہے ہوں یا کالج کی تعلیم،   علم ِ نافع سیکھنے کی تاکید کریں، روزانہ کچھ وقت اُن کے ساتھ صرف کریں اور اس دوران اُنہیں کچھ اچھی باتیں بتائیں، خود نہ جانتے ہوں تو پہلے حاصل کریں اور پھر اُنہیں بتائیں۔ اس میں اُن کا بھی فائدہ ہے اور بچوں کا بھی۔ 
 تعلیم کو نسبت ہے علم سے۔ اگر علم کو چند (درسی) کتابوں میں سمیٹ دیا گیا اور معاشرہ نے اسی کو مکمل علم سمجھ لیا تو علم کے حاملین پیدا نہیں ہوں گے اور معاشرہ یا سماج کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس کا ایک نتیجہ ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ کس طرح سماج میں جرائم بڑھ گئے ہیں اور ان کی نوعیت وقت کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ ہماری تعلیم، ویسے شہری پیدا کرنے سے عاری ہے جو انسانی، سماجی اور تہذیبی قدروں کے تئیں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور قانون کے پاسدار بن کر رہیں۔ اول تو تعلیم محدود ہے، دوسرے اس تعلیم کی وجہ سے نہ تو ہمدردی، غمخواری، ایثار ، قربانی، بہی خواہی ، حقوق شناسی اور فرض شناسی کے جذبات پیدا ہورہے ہیں نہ ہی فروغ انسانیت کی ضرورت پر یقین بڑھ رہا ہے۔ یہ ذمہ داری محکمہ ہائے تعلیم کی بھی ہے جنہیں اس سوال پر غور کرنا چاہئے کہ بہتر سوسائٹی کی تشکیل میں تعلیم معاون کیوں نہیں ہے۔  n

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK