EPAPER
Updated: December 19, 2021, 7:05 AM IST | Mumbai
گزرنے والا سال ۲۰۲۱ء تعلیمی دشواریوں کے نقطۂ نظر سے ۲۰۲۰ء کے جیسا ہی تھا، اس فرق کے ساتھ کہ ۲۰۲۱ء میں وہ خوف نہیں تھا جو سابقہ سال میں دیکھا گیا تھا
گزرنے والا سال ۲۰۲۱ء تعلیمی دشواریوں کے نقطۂ نظر سے ۲۰۲۰ء کے جیسا ہی تھا، اس فرق کے ساتھ کہ ۲۰۲۱ء میں وہ خوف نہیں تھا جو سابقہ سال میں دیکھا گیا تھا۔ طلبہ، اساتذہ اور والدین وبائی حالات میں جینا سیکھ چکے ہیں، طلبہ کی پریشانی کچھ کم ہوچکی ہے اور آن لائن پڑھائی سے اُن کی دوستی ہوچکی ہے خواہ اتنی پکی ّ نہ ہو جتنی آن لائن ایجوکیشن کے اپنے مسائل نہ ہونے کی صورت میں ہوسکتی تھی۔ اساتذہ گزشتہ سال کے تجربات و مشاہدات سے گزرنے اور طلبہ کی پڑھائی کا نقصان دیکھنے کے بعد اس سال زیادہ فعال رہے۔ ہرچند کہ اس ماہ کے آخری دن ختم ہونے والا سال، تعلیمی سال کی تکمیل کا اعلان نہیں ہوتا لیکن جب کیلنڈر بدلتا ہے تو فطری طور پر گزرنے والے سال کے تجزیئے کا خیال آتا ہے خواہ اُس کے ساتھ تعلیمی سال کا کیلنڈر نہ تبدیل ہوتا ہو۔ گزرنے والے سال میں دیکھا گیا کہ طلبہ اُن ایپس سے بڑی حد تک مانوس ہوچکے ہیں جو اُن کی سہولت کیلئے بنائے گئے خواہ یہ حکومت اور محکمۂ تعلیم کی عنایت ہو یا نجی اداروں اور افراد کی۔ ہماری معلومات کے مطابق جن تعلیمی ایپس کا تذکرہ بار بار کیا جاتا رہا ان میں ای پاٹھ شالہ، ای کلاس، وائی لرن، ایڈزیم وغیرہ شامل ہیں۔
انٹرنیٹ پر ان ایپس کے ذیل میں صارفین (طلبہ) کے تاثرات سے علم ہوتا ہے کہ انہوں نے خاطر خواہ فائدہ اُٹھایا۔اختتام پزیر سال کے دوران یہی ایک تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی بلکہ یہ بھی احساس ہوا کہ بہت سے فرض شناس اساتذہ نے آن لائن کلاسیز سے بے دلی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ’’مسئلہ‘‘ کو ’’موقع‘‘ تصور کیا اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ طلبہ کا تعلیمی نقصان نہ ہو۔ یہ تجربہ بہت خوشگوار یا سو فیصد کامیاب تو نہیں رہا مگر اس کی وجہ سے جہاں اساتذہ کو آن لائن تدریس کی مشق ہوئی وہیں طلبہ بھی یہ جاننے کے قابل ہوئے کہ اُنہیں آن لائن کلاسیزکیلئے کیسی اور کتنی تیاری کرنی چاہئے۔ ہر واقعہ میں کوئی نہ کوئی پیغام پوشیدہ ہوتا ہے چنانچہ کووڈ۔۱۹؍ کے واقعہ میں، جو برپا ہوکر گزر نہیں گیا بلکہ ٹھہرا رہا اور اب بھی اس کا سایہ دراز ہے، تعلیمی نقطۂ نظر سے طلبہ اور والدین کوآف لائن تعلیم کے مؤثر ہونے کا پیغام تھا۔ پیدا شدہ حالات میں یہ احساس شدت کے ساتھ ہوا کہ طالب علم اور معلم کا باہمی رشتہ تعلیم کا بنیادی جوہر ہے کیونکہ طالب علم اپنے استاد یا معلم سے لکھے ہوئے لفظ کی تفہیم ہی نہیں چاہتا، اس کی حرکات و سکنات سے، اس کے برتاؤ سے، اس کی شفقت و محبت سے اورمجموعی تدریسی عمل کےمضمرات سے بھی بہت کچھ سیکھتا ہے۔اُمید کی جانی چاہئے کہ ارباب اختیار و اقتدار نے آف لائن تعلیم کے فیوض وبرکات کا احساس کیا ہوگا اور اب کوشش کی جائے گی کہ ’’شخصی تعلیم‘‘ پر’’عکسی تعلیم‘‘ کو ترجیح نہ دی جائے، حالات کی مجبوری ہو تو بات دوسری ہے۔
اختتام پزیر سال کے دوران سلسلۂ تعلیم منقطع کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھی جس کے خلاف سرگرم ہونے کی اب بھی بہت ضرورت ہے۔ تعلیم کے محکموں کو تو اس جانب توجہ دینی ہی چاہئے والدین کو بھی بچوں کے مستقبل کے تئیں ذمہ دارانہ طرز عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں غیر سرکاری تنظیموں کی ذمہ داری بھی کم نہیں۔ اُنہیں محلے محلے ایسے بچوں تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے جو مختلف وجوہات کی بناء پر سلسلۂ تعلیم کو منقطع کرچکے ہیں ۔ تعلیمی سال کے اختتام میں دو ڈھائی ماہ سے زیادہ کا وقت باقی نہیں ہے۔ یہ وقت بھی غنیمت ہوسکتا ہے اگر طلبہ کے اب تک کے نقصان کو سامنے رکھ کر تلافی کی کوشش ہر جانب سے ہو ۔ n