Inquilab Logo Happiest Places to Work

معیارِ تعلیم کا مسئلہ

Updated: November 07, 2021, 11:34 AM IST | Mumbai

سپریم کورٹ کے جج، جسٹس یو یو للت نے گزشتہ پیر کو نیشنل لیگل سروسیز اتھاریٹی کے بیداری کیمپ سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے نظام ِ تعلیم کی چند بنیادی خامیوں کی طرف اشارہ کیا۔ جسٹس للت کا کہنا تھا کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن کی وجہ سے پچھلے گیارہ سال میں تعلیمی منظرنامہ بدلا ضرور ہے مگر ’’شمولیتی تعلیم‘‘ کے محاذ پر ہم اب بھی کافی پیچھے ہیں۔ شمولیتی (Inclusive) تعلیم پر ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ آج بھی ملک کے بچوں کو معیاری تعلیم نہیں مل رہی ہے

The issue of quality of education.Picture:Jagran
معیارِ تعلیم کا مسئلہ تصویر آئی این این

سپریم کورٹ کے جج، جسٹس یو یو للت نے گزشتہ پیر کو نیشنل لیگل سروسیز اتھاریٹی کے بیداری کیمپ سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے نظام ِ تعلیم کی چند بنیادی خامیوں کی طرف اشارہ کیا۔ جسٹس للت کا کہنا تھا کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن کی وجہ سے پچھلے گیارہ سال میں تعلیمی منظرنامہ بدلا ضرور ہے مگر ’’شمولیتی تعلیم‘‘ کے محاذ پر ہم اب بھی کافی پیچھے ہیں۔ شمولیتی (Inclusive) تعلیم پر ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ آج بھی ملک کے بچوں کو معیاری تعلیم نہیں مل رہی ہے جس کی وجہ سے ہم پائیدار ترقی کے معیارات پر پورا نہیں اُتر رہے ہیں۔ 
 اس خلاصہ سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جسٹس للت کا اشارہ نجی اور سرکاری نیز دیہی اور شہری درس گاہوں میں معیارِ تعلیم کی نسبت سے پائی جانے والی عدم مساوات کی طرف ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ اس لئے ہے کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن کے ذریعہ بچے اسکول کی دہلیز تک تو پہنچ جاتے ہیں مگر اسکول پہنچ جانا نہ تو حصول تعلیم کی ضمانت ہے نہ ہی معیاری تعلیم کی۔ فاضل جسٹس نے ایک بات یہ بھی کہی کہ ہم نے اپنے مایہ ناز اداروں مثلاً ایمس، آئی آئی ٹی، این آئی ٹی، نیشنل لاء اسکول وغیرہ کو تو بہتر بنالیا مگر یہ سوال ہنوز تشنہ ٔ جواب ہے کہ کیا بنیادی اور ثانوی تعلیم کے سرکاری اداروں کو بھی بہتر بنایا؟ اگر ہاں تو کیا سرکاری اسکول عام شہریوں کی پہلی پسند بنے؟ مشاہدہ تو یہ کہتا ہے کہ عام شہری اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں نجی اسکولوں کو ترجیح دیتے ہیں!
 بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں معیارِ تعلیم کی کوئی واضح تعریف متعین نہیں ہوسکی ہے۔ جن اداروں کے نتائج بہتر ہوتے ہیں اُن کے معیارِ تعلیم کو اعلیٰ تسلیم کرلیا جاتا ہے اور جن اسکولوں کے نتائج ناقص ہوتے ہیں اُن کے معیارِ تعلیم کو ادنیٰ سمجھ لیا جاتا ہے جبکہ صورتحال اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے خاص امتحانی نقطۂ نظر سے طلبہ کی رہنمائی کرنے والے اداروں کے نتائج بہتر آتے ہوں اور امتحانی نقطۂ نظر کو خصوصی اہمیت دیئے بغیر طلبہ کی اہلیت میں اضافے اور ان کی ہمہ جہتی نشوونما کی فکر کرنے والے اداروں کے نتائج اتنے اچھے نہ ہوتے ہوں جبکہ خالص تعلیمی زاویۂ نگاہ سے آخر الذکر کی کاوشیں زیادہ قابل قدر ہوتی ہوں! یہ ایک مسئلہ ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ شہری و دیہی علاقوں کے معیارِ تعلیم اور اسکول انفراسٹرکچر میں موازنہ غلط نہیں مگرمسئلہ صرف شہری اور دیہی علاقوں کے معیار کا نہیں، شہری اور شہری معیارکا بھی ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک ہی شہر کے چند اسکولوں کا تعلیمی معیار بھی بہتر اور انفراسٹرکچر بھی بہتر ہوسکتا ہے مگر اسی شہری کے دیگر اسکولوں کی حالت خستہ ہوسکتی ہے۔ اسی لئے، تعلیمی اداروں کو خواہ وہ شہری علاقوں کے ہوںیا دیہی، امیر علاقوں کے ہوں یا پسماندہ علاقوں کے، ایک دوسرے کے برابر لانے کی کوشش ہی سے حالات سنور سکتے ہیں اور تعلیم کے ذریعہ پائیدار ترقی کے خواب پورا ہوسکتا ہے۔ ارباب اقتدار کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ پسماندہ بستیوں کے طلبہ بھی اسی ملک کے ہیں اور دیہی علاقوں میں پڑھنے والے بچے بھی اسی سرزمین کے۔ ملک کی ترقی میں ہر دو طرح کے طلبہ کا حصہ ہونا چاہئے کیونکہ تعلیم اور معیاری تعلیم پر کسی ایک طبقے، فرقے، علاقے یا مخصوص معاشی پس منظر کا حق نہیں، یہ سب کیلئے ہونی چاہئے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ارباب اقتدار پائیدار ترقی کے حوالہ سے ۵؍ کھرب ڈالر کی اکنامی کی تو بات کرتے ہیں مگر اس کیلئے جو تیاری ہونی چاہئے بالخصوص تعلیمی مساوات کے لزوم کی، اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ n 

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK