EPAPER
Updated: February 01, 2022, 8:30 AM IST | kamal hasan | Mumbai
مودی اور شاہ کی ٹیم کو اس کا بھی بخوبی اندازہ ہے کہ صوبائی انتخابات کے بعد چین کا ایشو پوری طاقت سے اٹھے گا۔ اس ایشو کو سب سے پہلے کانگریس اٹھائے گی، اس کے بعد تمام اپوزیشن کانگریس کی آواز میں آواز ملانے لگے گا۔
بی جے پی جب جن سنگھ ہوا کرتی تھی، اس وقت سے اب تک پارٹی نے کوئی میونسپلٹی تک کا ایسا الیکشن نہیں لڑا جس میں پاکستان کے حوالے سے کسی بات کو الیکشن کا ایشو نہ بنایا گیاہو۔بعد میں اس میں کشمیر اور دہشت گردی کے مضامین بھی جوڑ دیئے گئے۔ پارٹی کے لیڈروں کے بھاشنوں میں شعلے اسی وقت بھڑکتے دکھائی دیتے تھے جب کشمیر، دہشت گردی یا پاکستا ن اور آئی ایس آئی کا ذکر چھڑ جاتا تھا۔لیکن اس بار پانچ صوبوں ، خصوصاً اتر پردیش کے انتخابات کے لئے مہم میں دہشت گردی، کشمیر اور پاکستان حیرت انگیز طور پر غیر حاضر نظر آرہے ہیں۔ کشمیر اور دہشت گردی کا ذکر شاید اس ڈر سے نہیں کیا جا رہا ہے کہ اگر کیا گیا تو حریف یہ سوال پوچھیں گے کہ آپ تو کہتے تھے کہ آدھی دہشت گردی تو نوٹ بندی نے ختم کر دی ہے اور باقی ریاست جموںکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ سے خود بخود ختم ہو جائے گی۔ تو پھر ختم کیوں نہیں ہوئی۔ ظاہر ہے اس کے جواب میں خاموش ہی رہنا پڑے گا اور یہ خاموشی اعتراف شکست سمجھی جائے گی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ۱۹۴۷ ءمیں صرف ملک ہی تقسیم نہیں ہوا تھا خاندان بھی تقسیم ہو گئے تھے۔ بہت سے مسلمان خاندان ایسے تھے اوراب بھی ہیں جن کے سگے رشتہ دار پاکستان میں ہیں۔ فاصلے پیدا ہونے سے رشتے تو نہیں ٹوٹتے۔ بی جے پی کے لئے ہندوستانی مسلمانوں کی ملک سے وفاداری پر شک پیدا کرنے اور کرانے کیلئےبس اتنا ہی کافی ہوتا تھا۔ چنانچہ میونسپلٹی سے لے کر لوک سبھا تک کے انتخابات تک میں یہ شوشہ ضرور چھوڑا جا تاتھا کہ جب پاکستانی کرکٹ ٹیم میچ جیتتی ہے تو ہندوستانی مسلمان پٹاخے داغتے ہیں۔ پھر اس میں عجب مضحکہ خیز باتیں بھی شامل ہوتی چلی گئیں۔ مثلاََ یہ کہ اگر سرحد اس پار سے کوئی کبوتر اس پار آگیا تو کہا گیا کہ کبوتر نہیں پاکستانی آئی ایس آئی کا پیغام رساں ہے اور اس کے پیر میں کوئی خفیہ مکتوب پھنسا ہوا ہوگا۔ سب سے بڑا ایشو یہ ہوتا تھا کہ کشمیرکی سرحد پر پاکستانی فوج فائرنگ اسلئے کرتی ہے کہ اس کی چھائوں میں دہشت گردوں کی ہندوستان میں گھس پیٹھ کرائی جا سکے۔ اس موضوع پر تو کئی ہندی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ لیکن اس بار بی جے پی کے لیڈر یہ بھی نہیں کہہ رہے ہیں۔ اس کی وجہ بھی ہے شاید اس سلسلہ میں مودی سرکار نے اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مار لی ہے۔
یہ بات عام طورپر جانی جاتی ہے کہ گزشتہ سال مئی میں پاکستان اور ہندوستان کے اعلیٰ ترین فوجی افسروں نے ’’ہاٹ لائن‘‘ پر بات کرنے کے بعد جنگ بندی کے ایک سمجھوتے پر دستخط کر دیئے تھے۔ سمجھوتے کی رو سے کسی ملک کی فوج دوسرے ملک پر فائرنگ نہیں کرے گی اور یہ کہ اگر کوئی معاملہ یا تنازع ہوا تو دونوں ملکوں کے سرحدوں پر تعینات اعلیٰ افسران بات چیت کر کے انہیں طے کرلیں گے۔ اس سمجھوتے پر لوگوں نے سوال ضرور اٹھائے کہ یہ سمجھوتہ کیوں کیا گیا یا کس کے دباؤ میں کیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ سمجھوتہ عین اس وقت ہوا تھا جب ایک طرف پاکستان کی طرف سے زبردست پیمانے پر فائرنگ کی جا رہی تھی اور ہندوستانی فوج اسی پیمانے پر اس کا جواب دے رہی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ اس فائرنگ میں دونوں طرف کے نہتّے شہری زیادہ مارے جا رہے تھے۔ مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ یہی وہ زمانہ تھا جب چین نے ہمارے سرحدی علاقوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ بعض حلقوں میں یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ شاید یہ سمجھوتہ امریکہ کے دباؤ میں کیا گیا تھا۔لیکن حقیقت یہ تھی کہ یہ سمجھوتہ متحدہ عرب امارات کی ثالثی کے ذریعہ عمل میں آیا تھا۔ بہر حال اس سمجھوتے کی وجہ سے بی جے پی کے ہاتھوں سے ایک اہم ایشو جاتا رہا۔
غرض کشمیر اور پاکستان کی غیر حاضری بی جے پی کو بہت کھل رہی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے کیرانہ میں ہندوئوں کو گھر چھوڑنے کے واقعہ کی یادیں دوبارہ تازہ کرانے کی کوشش کی گئی۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ بہ نفس نفیس کیرانہ پہنچے اور یہ کہہ کر پہنچے کہ کیرانہ سے ہندوئوں کے گھر چھوڑ کر بھاگنے کی یاد ان کا خون کو کھولا دیتی ہے۔ یاد رہے کہ ۲۰۱۳ میں اسی واقعہ کو بنیاد بناکر ہندو مسلم برسوں پرانی ایکتا کی دیوار ڈھا ئی گئی تھی۔ لیکن اس بار جب امیت شاہ نے اس واقعہ کا ذکر کیا تو لوگوں کا خون نہیں کھولا۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کو ہرانتخاب میں ایک خیالی دشمن کی ضرورت ہوتی ہے جو اس بار نہیں مل رہا ہے۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ اگر کوئی فرقہ وارانہ ایشو ہاتھ نہ آئے تو بی جے پی بالکل بے دست و پا ہو جاتی ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اڈوانی کی رتھ یاترا کے بعد شمالی اور مغربی ہندوستان کو ہندوتوا کی جس لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا،وہ لہر اب دھیمی پڑچکی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ بال ٹھاکرے تو اڈوانی کے ہندوتوا کے اثر میں آگئے تھے، لیکن ان کے وارث ادھو ٹھاکرے ببانگ دل کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے شیو سینا نے ۲۵ ؍قیمتی سال ضائع کر دیئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی اور شیو سینا کا ہندوتوا دو الگ قدریں ہیں۔ اس بیان کے کئی مطلب نکالے جا سکتے ہیں ، لیکن ایک مطلب بہت واضح ہے۔ شیو سینا کو یقین ہو چکا ہے کہ اب ہندوتوا ووٹ دلا نے والا ویسا زور دار نعرہ نہیں رہا، جیسا پچھلے تیس برسوں میں ثابت ہوتا رہا ہے۔ اُدھو ٹھاکرے کے بیان سے زیادہ بیان دینے کا وقت غور طلب ہے۔ ایک ایسے وقت اس بیان کا سامنے آنا جب دہشت گردی، کشمیر اور پاکستان کے ایشو بی جے پی کے ہاتھوں سے نکل چکے ہوں اور ہندوتوا کے سوا پارٹی کے پاس کوئی ایشو بچا ہی نہ ہو، ادھو ٹھاکرے کا بیان پارٹی کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہی کہا جا سکتا ہے۔
اس کی جھلک پانچ صوبوں کے اسمبلی انتخابات میں بھی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ پنجاب، منی پور اور گوآ میں تو خیر یوں بھی ہندوتوا لوگوں کے دلوں میں کوئی ہلچل نہیں پیدا کر سکتا تھا، لیکن یو پی میں بھی اس کا کوئی اثر نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ ایودھیا، کاشی اور متھرا بھی اس بار وہ جوش نہیں پیدا کر سکے ، بی جے پی کو جس کی توقع تھی۔ کوئی نعرہ کشمیر ، دہشت گردی اور پاکستان کا متبادل نہیں بن پا رہا ہے۔ بی جے پی کو بڑی شدت سے کسی پلوامہ، کسی سرجیکل اسٹرائک یا کسی بالا کوٹ کی جستجو ہے۔ لیکن اس وقت ایسے کسی حادثہ یا واقعہ کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ مودی اور امیت شاہ سمیت بی جے پی کا ہر لیڈر چین کا نام لیتے ڈرتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ چین نے جس طرح کی جارحیت کی ہے، جس طرح ہندوستان کی زمینوں پر قبضہ کیا ہے، یا جس طرح ہندوستانی فوجیوں کو شہید کیا ہے، اسے ایشوبنایا جاتا لیکن ان باتوں کا ذکر تو مودی سرکار کی کمزوریوں کو اجاگر کردے گا۔یوں بھی شاید پاکستان کے نام سے راشٹر واد کی جو ’’بھاونا‘‘ جگائی جاتی ہے اور جگائی جاتی رہی ہے، وہ چین کا نام لے کر نہیں جگائی جا سکتی۔ مودی اور شاہ کی ٹیم کو اس کا بھی بخوبی اندازہ ہے کہ صوبائی انتخابات کے بعد چین کا ایشو پوری طاقت سے اٹھے گا۔ اس ایشو کو سب سے پہلے کانگریس اٹھائے گی، اس کے بعد تمام اپوزیشن کانگریس کی آواز میں آواز ملانے لگے گا۔یہ ایشو پہلے صرف دہلی میں اٹھے گا، لیکن بہت جلد ملک گیر شکل اختیار کر لے۔n