Inquilab Logo Happiest Places to Work

ماں باپ کا نعم البدل ممکن نہیں مگر

Updated: January 28, 2022, 8:42 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

جس حد تک بھی سہارا دے وہ قابل قدر ہے۔ کورونا جیسی وباء میں زیادہ تعداد میں بچوں کا ماں، باپ یا دونوں سے محروم ہونا جاری ہے، کچھ لاولد جوڑے ان کو گود لینے کے خواہشمند ہیں، مگر گود لئے جانے کے عمل میں سرکاری ایجنسیوں اور حکومت کے قانونی ضابطوں کی تکمیل رکاوٹ ڈال رہی ہے۔

Outbreaks appear to be exacerbated during childhood and adolescence.Picture:INN
کورونا جیسی وباء میں زیادہ تعداد میں بچوں کا ماں، باپ یا دونوں سے محروم ہونا جاری ہے۔ تصویر: آئی این این

 امراض تو خطرناک ہوتے ہی ہیں وہ لوگ بھی کم خطرناک نہیں ہوتے جو نیکی کا ڈھونگ رچا کر یا جان بچانے کے نام پر جان لینے کا کاروبار کرتے ہیں۔ بے پیسے کا نوکر بنانے کیلئے رشتہ داری کا دم بھرتے ہیں یا یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے کے نام پر مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مگر قدرت بھی اپنا کام کرتی رہتی ہے۔ قدرت ہی کا کرشمہ تھا کہ سینٹرل اڈپشن ریسورس ایجنسی (کارا) کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس ایجنسی کا مقصد گود دینے کے کام کو کنٹرول کرنا یا ضابطے کے تحت لانا تھا۔ اس سے پہلے یتیم بچوں کو گود لینے کا ڈھونگ رچا کر ان سے کچھ اور ہی کام لیا جاتا تھا۔ اس ایجنسی نے ۳۶؍ ہزار لوگوں (میاں بیوی) کے نام درج کر رکھے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بچے کو گود لینا چاہتے تھے مگر اب تک ۱۹۳۶؍ بچے ہی گود دیئے جانے والوں کی فہرست میں شامل ہوئے ہیں جبکہ کورونا کے دوران یعنی یکم مارچ ۲۰۲۰ء سے ۳۰؍ اپریل ۲۰۲۱ء تک ملک میں ایک لاکھ ۱۹؍ ہزار بچے اپنے ماں باپ یا سرپرستی کرنے والے دادا دادی سے محروم ہوئے۔ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس نے حال ہی میں سپریم کورٹ میں جو اعداد و شمار پیش کئے ہیں ان کے مطابق اپریل ۲۰۲۱ء سے اب تک کورونا کی وباء کے سبب ۱۰۰۹۴؍ بچے ماں باپ دونوں کے سایے سے اور ۱۳۶۹۱۰؍ بچے ماں باپ میں سے کسی ایک کے سایے سے محروم ہوگئے۔ ۴۸۸؍ بچے تو ایسے ملے جنہیں یتیموں کی طرح لاوارث چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود یعنی یتیم بچوں کی تعداد اور ان کو گود لینے کے خواہشمند جوڑوں کی تعداد بھی بڑھنے کے باوجود یتیم بچوں کو گود لینے کے خواہشمند جوڑوں کے حوالے نہ کئے جانے کی کیا وجوہ ہیں؟
 یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب کوئی یتیم، لاوارث یا گھر سے بھاگا ہوا بچہ کسی مقام پر پایا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کو چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ کمیٹی ہی طے کرتی ہے کہ کن کن بچوں کو گود دیا جاسکتا ہے۔ کمیٹی ہی مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد ان کو مختلف چلڈرنس ہوم اور اڈپشن ایجنسیوں کو بھیجتی ہے کہ یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ کن بچوں کو گود دیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد کا مرحلہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا ہے۔ ’کارا‘ جن بچوں کی فہرست جاری کرتی ہے ان کے سرٹیفکیٹ کے علاوہ ان کی پوری تفصیل بھی موجود ہوتی ہے۔ ظاہر ہے یہ عمل وقت طلب ہے۔ اس کے علاوہ یہ پیچیدہ بھی ہے اسی لئے کورونا کے دوران ماں باپ کے سایے سے محروم ہونے والے بچوں کے مستقبل کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی، دی امپیریل کالج آف لندن اور یو ایس سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول جیسے اداروں یا شعبوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ تشویش غلط نہیں ہے۔ خود ہماری حکومت کے جاری کئے ہوئے اعداد و شمار سے یہ تشویش جائز معلوم ہوتی ہے۔ ثبوت یہ ہے کہ ۲۰۱۵ء اور ۲۰۲۱ء کے دوران دو سال سے کم عمر کے جن بچوں کو گود دیا گیا یا کسی جوڑے کو پرورش کیلئے حوالے کیا گیا ان کی تعداد ۱۸۴۱۵؍ ہے۔ اسی طرح دو سے چار سال کے بچوں کی تعداد ۱۷۸۲، چار سے چھ سال کے بچوں کی تعداد ۱۳۹۸؍ اور چھ سے آٹھ سال کی عمر کے بچوں کی تعداد ۷۹۷؍ ہے جنہیں کسی جوڑے کو گود دیا گیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ۵؍ برسوں کے مقابلے ۲۱-۲۰۲۰ء میں صرف ۳۱۴۲؍ بچے ہی گود دیئے گئے یعنی گود دیئے جانے کے عمل میں سست رفتاری دیکھی گئی۔ یہ تمام اعداد و شمار یہی ثابت کرتے ہیں کہ یتیم و لاوارث ہونے والے بچوں کے مقابلے گود دیئے جانے والے بچوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایجنسیاں بتاتی ہیں کہ چونکہ ان کے پاس فنڈ کی کمی ہے یا اخراجات پورے نہیں ہوتے اس لئے وہ زیادہ تعداد میں لاوارث اور یتیم بچوں کو اپنے ادارے میں نہیں رکھ سکیں۔ کورونا کے دور میں انہیں ریاستی حکومتوں کی طرف سے بھی کوئی مدد نہیں ملی۔ فنڈ کا انتظام ہوا ہوتا یعنی مختلف ذرائع سے انہیں مدد ملی ہوتی تو وہ زیادہ تعداد میں بچوں کو حاصل کرکے ان کی نگہداشت کرسکتی تھیں۔ تکنیکی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بھی ہاتھ بٹا کر ان کی مدد کی جاسکتی تھی جو نہیں کی گئی۔
 واقعہ یہ ہے کہ جن کے گھروں میں بچے کلکاریاں بھرتے ہیں وہ کبھی ان مائوں کے بارے میں سوچتے ہی نہیں جن کی گود سونی ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک لاولد جوڑے نے کسی کو گود لیا اور پھر اس کی اپنی اولاد ہوگئی تو اس نے گود لئے ہوئے بچے سے حسن سلوک کرنا چھوڑ دیا۔ مَیں نے ایک ایسے شخص کو بھی دیکھا جو مدرسوں میں پلا بڑھا تھا۔ جس شہر کے مدرسے میں آخر میں رہا اسی شہر میں بس گیا۔ عرب گیا تو مکان بھی بنوا لیا۔ دوسری یا تیسری شادی پہلے ہی کرچکا تھا۔ ایک دن اس کے پاس میں نے ایک ۹، ۱۰؍ سال کے لڑکے کو دیکھا۔ اس نے خود ہی بتایا کہ وہ میرا بھائی ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جس لڑکے کو اس نے اپنا بھائی بتایا دراصل وہ پہلی بیوی سے اس کا لڑکا تھا۔ جس بیٹے کو اس کا باپ اپنا بیٹا کہنے میں شرمندگی محسوس کرتا ہو اس بیٹے کے دل پہ کیا گزری ہوگی۔ ہمارے اس معاشرے میں سرکاری کارکن یا غیر سرکاری ادارے کے ذمہ داران ہی نہیں بھلے سمجھے جانے والے لوگ بھی یتیم، لاوارث یا غربت کے مارے شخص سے اچھا سلوک نہیں کرتے۔ ان کی حیثیت کورونا کے وائرس سے بھی بدتر ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ یہ وائر س ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ ایسے لوگ بڑی تعداد میں ہیں جو بغیر تنخواہ کا نوکر پانے کیلئے رشتہ داری کا حوالہ دیتے ہیں یا خود کو کم عمر ثابت کرکے دوسری شادی کرنے کیلئے اپنی پہلی بیوی سے بیٹے کو اپنا بھائی قرار دیتے ہیں۔ ایسے بچے بھی اسی معاشرے میں ہیں جن کے والد یا والدین حیات ہیں مگر وہ یتیم جیسی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ ایسے بچے بھی ہیں جو اپنے کسی سرپرست یا عزیز کی کفالت کی وجہ سے بڑے ہوچکے ہیں مگر ان کی ہوس اور آرام طلبی انہیں دوسروں کی طرف دیکھنے اور ان کی شکایت کرنے پر اکساتی رہتی ہے۔
 کورونا جیسی وباء میں زیادہ تعداد میں بچوں کا ماں، باپ یا دونوں سے محروم ہونا جاری ہے، کچھ لاولد جوڑے ان کو گود لینے کے خواہشمند ہیں، مگر گود لئے جانے کے عمل میں سرکاری ایجنسیوں اور حکومت کے قانونی ضابطوں کی تکمیل رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ جو صاحب اولاد ہوچکے ہیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے عزم سے محروم ہیں اور پھر لوگوں کی لگائی بجھائی اور بدنیتی کا بھی شکار ہیں اسلئے ان کو کوئی اچھی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ماں باپ کا نعم البدل ممکن نہیں مگر جو جس حد تک بھی سہارا دے وہ قابل قدر ہے۔ قابل قدر سمجھنے والوں میں وہ لوگ شامل نہیں جو دوسروں کا استحصال کرکے خود کو حاتم طائی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK