Inquilab Logo Happiest Places to Work

مجھے خوف آتش گل سے ہے

Updated: March 19, 2021, 12:00 PM IST | Shamim Tariq

مساجد کے تعلق سے سوال اُٹھائے جانے اور اس طرح ان کے تحفظ کو خطرہ سے دوچار کرنے کے موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ مسلمان ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اور قانونی طور پر مضبوط ہوکر اُٹھائیں۔ اشتعال اور عاقبت نااندیشی سے بچنا اور کسی کا آلۂ کار نہ بننے کی روش ہی بہتر روش ہوگی۔

Babri Masjid - Pic : INN
بابری مسجد ۔ تصویر : آئی این این

تقریباً سولہ مہینہ قبل سپریم کورٹ نے بابری مسجد - رام جنم بھومی معاملے میں جب فیصلہ دیا تھا تو ایک طبقے نے خیال ظاہر کیا تھا کہ یہ فیصلہ تنازع ختم کرنے کیلئے ہے اور اس فیصلے نے ایسی کئی غلط فہمیوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا ہے جو ذہنوں میں زہر بھرتی رہی ہیں مگر ہوا یہ کہ اس فیصلے کے بعد فتنوں کے نئے دروازے کھل گئے۔ ۱۹۹۱ء میں نرسہما رائو حکومت نے جب عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون بنایا تھا تب بھی یہی کہا گیا تھا کہ حکومت نے بابری مسجد کے علاوہ ہر اس مسجد کے تحفظ کو یقینی بنا دیا ہے جو ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو یعنی ملک کو آزادی ملنے کے وقت مسجد تھی۔ اب اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے بلکہ سپریم کورٹ نے چیلنج کرنے والی عرضی کو سماعت کیلئے منظور بھی کرلیا ہے۔ بابری مسجد کے معاملے کی سماعت کے دوران ایک سوال یہ بھی اٹھایا گیا تھا کہ کیا مسلمانوں کیلئے مسجدوں میں ہی نماز پڑھنا ضروری ہے؟ جواب میں فاضل جسٹس صاحبان نے جو باتیں کہی تھیں ان سے لگتا تھا کہ وہ اطمینان کرچکے ہیں کہ نماز کسی بھی جگہ پڑھی جاسکتی ہے۔ شاید ان کو مطمئن نہیں کیا جاسکا تھا کہ مساجد اور مساجد میں نماز ِباجماعت کو اسلام میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اب وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس نے جو اشارے دیئے ہیں ان سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک خاص منصوبے پر کام کررہے ہیں اور ان کے حوصلے بہت بلند ہیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں میں اکثر ایسے لوگ خبروں میں آجاتے ہیں جن کے ادا کئے ہوئے الفاظ اسلام کی تعلیمات اور مسلمان تو کیا ایک انصاف پسند انسان کی غیرت سے بھی مطابقت نہیں رکھتے۔
 کم و بیش تیس سال پرانی بات ہے دہلی سے نکلنے والے ایک کثیر الاشاعت ہفت روزہ میں ایک مولانا کے مضمون کے جواب میں راقم الحروف نے اسی ہفت روزہ میں مضمون لکھا تھا کہ ہم یہ کہہ کر اپنے فرائض سے سبکدوش نہیں ہوسکتے کہ مساجد اپنی نگہبان آپ ہیں۔ جب الہ باد ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تو وہ مولانا صاحب ٹی وی پر نظر آرہے تھے اور ان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ بعد میں بابری مسجد کی شہادت سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک کئی مولوی صاحبان کے چہرے سامنے آئے مگر ملت اپنے اجتماعی فیصلے پر بہرحال قائم رہی۔ اس فیصلے میں مسلمانوں کے ساتھ انصاف پسند لوگوں کے ضمیر کی آواز شامل تھی۔ مسلمان بابری مسجد کی بازیافت تو نہیں کرسکے مگر اپنی اجتماعی غیرت اور بعض نام نہادوں کی بے غیرتی واضح کردی۔
 تازہ عرضی میں جو باتیں کہی گئی ہیں سپریم کورٹ بابری مسجد کے فیصلے میں ان کی پہلے ہی تردید کرچکا ہے۔ اس لئے اس عرضی کے مسترد کئے جانے کیلئے وہی ایک فیصلہ نظیر یا بنیاد بن سکتا ہے جو سپریم کورٹ تقریباً ۱۶؍ مہینہ قبل صادر کرچکا ہے مگر اس حقیقت سے انکار یا انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ خود مسلمانوں میں ان کے اجتماعی احساسات کے خلاف کام کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ’’مجھے خوف آتش گل سے ہے … ‘‘ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔
 عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو چیلنج کرنے والی عرضی میں جس کے سبب ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کی مساجد کو قانونی طور پر بھی مسجد تسلیم کیا جاتا ہے، عرضی گزار نے یہ بھی کہا ہے کہ ۱۱۹۲ء سے پہلے کی مسجدوں کو ہی مسجد تسلیم کیا جائے۔ یہ وہ دور ہے جب اس ملک میں مسلمانوں کی آمد شروع ہوئی تھی یا آمد شروع ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ ابتدا میں وہ بحری راستے سے کیرالا اور دیگر ساحلی علاقوں میں آئے اور آکر واپس چلے گئے تھے یا بس گئے تھے۔ اس وقت ان ہی علاقوں میں چند مساجد تعمیر ہوئیں اور نہ صرف مقامی راجائوں کی اجازت سے تعمیر ہوئیں بلکہ مقامی آبادی یا مقامی لوگوں نے بھی ان کی تعمیر کا استقبال کیا۔ ایسی شہادتیں بھی ہیں کہ مقامی آبادی کے اصرار پر کئی مقامات پر سکونت اختیار کرنے کے ساتھ مسلمانوں نے مساجد تعمیر کیں اور ان میں نماز باجماعت اور اذان کا اہتمام کیا۔ اس وقت مقامی آبادی کا تاثر بلکہ عقیدہ یہ تھا کہ جماعت و جمعہ اور اذان کے سبب بلائیں دور ہوتی ہیں۔
 برّی راستوں سے جب مسلمانوں کی آمد شروع ہوئی اور انہوں نے مساجد کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا تو مقامی راجائوں اور عام لوگوں نے کھلے دل سے ان کی آمد اور تعمیر مسجد کا استقبال کیا۔ بعض ناخوشگوار واقعات یا غیر منصفانہ اقدام سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر اس سے اس حقیقت کی نفی نہیں ہوتی کہ مسلمانوں نے تو مساجد کی تعمیر میں مقامی راجائوں کی منظوری اور مقامی آبادی کی خوشنودی کا لحاظ رکھا ہی، غیر مسلموں نے بھی ان کی آمد اور تعمیر مساجد کا استقبال کیا۔
 تنازعات انگریزوں کی آمد کے بعد شروع ہوئے۔ انگریزوں نے شر پسندوں کو حوصلہ دیا اور مسلمانوں کیلئے بعض مساجد کے وجود کا ثبوت فراہم کرنا مشکل ہوا کیونکہ اپنی تاریخ کے برعکس انہوں نے دستاویزات سنبھالنے میں مستعدی نہیں دکھائی تھی۔ پھر یہ بھی ہوا کہ کچھ لوگوں نے صرف ’’قلمکار‘‘ ہونے کا ثبوت دینے کیلئے ایسے مضامین لکھے یا شہرت کیلئے اپنے نام سے لکھوائے جو شر پسندوں کی قوت کا سرچشمہ بن گئے۔ ایسی ہی کچھ تحریریں بابری مسجد اور گیان واپی مسجد کے بارے میں بھی ہیں۔ 
 یہ تو ہوئے اللہ کے گھر کے بارے میں لکھے گئے کچھ غیر ذمہ دارانہ مضامین کی طرف چند اشارے۔ اب تو اللہ کے کلام کے بارے میں بھی ایسی باتیں کہی جارہی ہیں اور سپریم کورٹ سے وہ درخواست کی گئی ہے جس کو منظور کرنا اس کے دائرئہ اختیار میں ہی نہیں ہے۔ قرآن حکیم کی ۲۶؍ آیات تو کیا بسم اللہ کی ب کے نقطے اور ناس کی س سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بدبختی ہے کہ قرآن حکیم پر ایمان رکھنے والوں جیسا نام رکھ کر قرآن حکیم کی ۲۶؍ آیات سے انکار کیا گیا ہے۔ عجب نہیں کہ مصلحت بیں اس بیان کی بھی کوئی تاویل کردیں کہ اصحابِ اقتدار کی جنبش ابرو کے مطابق ایمان بدلنے والے لوگ ہر زمانے میں رہے ہیں مگر اُن کا حشر بھی ہمارے سامنے ہے۔ اللہ کے گھر اور کلام کے بارے میں بیہودگی کرنے والے بھی برے حشر سے دوچار ہونگے۔ ہمارا فرض ہے کہ اشتعال اور عاقبت نا اندیشی سے دور رہ کر اپنے اور اپنوں میں شامل سمجھے جانے والوں کے اعمال اور بیانات کا محاسبہ کرتے رہیں۔ حق کے دشمن وہ بھی ہیں جو مصلحت و مفاد کے تحت دوسروں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور وہ بھی جو یہ سمجھنے لگے ہیں کہ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا۔ ان کو اللہ کے گھر کے تحفظ اور اس کے کلام کی صحیح ترجمانی سے شاید مطلب نہیں رہ گیا ہے۔ ان کی حیثیت اس ’’ آتش گل ‘‘ جیسی ہے جس سے علم و ایمان و غیرت کے چمن کے جل جانے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK