EPAPER
Updated: December 12, 2021, 9:17 AM IST | Jilani Khan | Lucknow
مساجد کے تعلق سے بڑھتی ہوئی شرانگیزیوں کے تناظر میں مختلف مکاتب فکر سے وابستہ اہم مذہبی لیڈروں نے اپیل کی ہے کہ برادران ملت اپنی عبادتگاہوں کو آباد اور فعال رکھیں کیونکہ یہ ہم سب کا فریضہ ہے
بابری مسجد کھو دینے کی ٹیس ابھی بھی ملت محسوس کررہی ہے ۔ایسے وقت میں جب متھرا واقع شاہی عیدگاہ مسجداور وارانسی کی گیان واپی مسجد پر بھی قبضہ کرنے کے خواب بُنے جارہے ہوں اور بھگوا بریگیڈ کے سرکردہ لیڈر یکے بعد دیگرے اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہو ں تو ملی رہنمائوں کااظہار تشویش غیر متوقع نہیں۔اس درمیان مختلف مکاتب فکر سے وابستہ اہم مذہبی لیڈروں نے اپیل کی ہے کہ برادران ملت اپنی تمام عبادتگاہوں کو آباد اور فعال رکھیں کیونکہ یہ ہم سب کا فریضہ ہے۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ بطور خاص بڑی مساجد کا استعمال اسلامی مراکز کے طور پر ہوتاکہ مسلمان اس سے گہرے تعلقات وابستہ رکھیں۔علاوہ ازیں، دیگر مذہبی عبادتگاہوں کو بھی آباد رکھنے کی اپیل کی ہے تاکہ کسی شر پسند،زمین مافیا یا متعصب افسران ان پر غاصبانہ نظر نہ رکھ سکیں۔
وارانسی میں کاشی وشو ناتھ کوریڈور کے افتتاح کا وقت قریب آ پہنچا ہے اور وزیرا عظم مودی کے ہاتھوں یہ تقریب عمل میں آئے گی جس کی تیاریاں زورو شور سے جاری ہیں۔ان تیاریوں کے درمیان گیان واپی مسجد کے تعلق سےوہاں کے مسلمانوں میں ایک خوف بھی ہے حالانکہ انتظامیہ یا کسی بھی جانب سے ایسی کوئی ہدایت یا سختی نہیں کی جارہی ہے۔اس صورتحال کے درمیان مفتی شہر مولانا عبدالباطن نعمانی نے اہل شہر سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مسجد میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں نماز ادا کریں ۔انہوں نے یہ اپیل بالخصوص اس لئے کی ہے کہ تقر یباً ۵۰۰؍مصلیان کی گنجائش والی یہ مسجد نماز جمعہ کےوقت تو بھری رہتی ہے مگر باقی نمازوں کے دوران بمشکل ۱۵۔۱۰؍نمازی ہی ہوتے ہیں۔ مولانا نعمانی نے ’انقلاب‘ کو بتایا کہ کبھی کبھی تو ۱۰؍لوگوںکو بھی نماز ادا کرتے ہوئے دیکھنا ایک خواب جیسا لگتا ہے۔اس اپیل کے تعلق سےگیان واپی مسجدمیں نماز جمعہ کے امام نے بتایا کہ اگر ہم مساجد آباد نہیں رکھیں گے تو ان عناصر کو ایک واضح پیغام جائے گا کہ یہ ہماری ضرورت ہی نہیں جو مسلمانوں کے لئے نقصاندہ ہوگا۔دبی زبان میں مولانا نے کہا کہ ہمیں ملک کے حالات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بطور خاص اپنی تمام عبادتگاہوں کو آباد رکھناچاہئے کیونکہ یہ ہم سب کا فریضہ ہے۔
اس بارے میں جنرل سکریٹری انجمن مسجد انتظامیہ ایم ایس یٰسین نے بھی یہی بات کہی۔ گیان واپی مقدمہ سے وابستہ ایس ایم یٰسین نےکہا کہ مذکورہ مسجد میں نمازیوں کی تعداد دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کیونکہ ارد گردکافی مسلم آبادی ہے۔ہمیں اپنی مسجدیں آباد رکھنے کیلئے بھی اپیل کرنی پڑے یہ واقعی افسوسناک ہے۔ وہیں، شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد نقوی نے کہا کہ ہماری عبادتگاہیں خالی پڑی رہتی ہیں اور ہم دوسروں کو قبضہ یا ان عمارتوں کے خلاف مہم چلانے کا موقع دے دیتے ہیں ۔جنرل سیکریٹری مجلس علمائے ہند اور امام جمعہ مولانا سید کلب جواد نقوی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں اپنی عبادتگاہوں کے تحفظ کو اپنی زندگی کا اہم فریضہ مانتے ہوئے اس پر سنجیدہ رہنا چاہئے کیونکہ یہ اگر ہم نہیں کریں گے تو ہمیں دوسروں سے شکایت کا بھی کوئی حق نہیں۔مساجد اور عبادتگاہوں کے تحفظ اور انہیں آباد رکھنے کی بابت اما م عید گاہ مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے ’انقلاب ‘ سے بات چیت کے دوران کئی اہم مشورے دیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیںاپنے اپنے علاقوں کی بڑی مساجد کو مسجد نبوی کی طرز پر اسلامی مرکز کے طور پر استعمال کرنا چاہئے جہاں مسلمانوں کے اہم دینی مسائل کا بحسن و خوبی حل نکالا جاسکے۔قابل غور ہے کہ بابری مسجد کے خلاف مہم چلانے والوں کے دلائل میں سے ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ یہاں برسوں سےنماز نہیں ہورہی تھی ۔