Inquilab Logo Happiest Places to Work

ء ۲۰۲۱کے پس منظر میں ۲۰۲۲ء: امکانات و خدشات

Updated: December 26, 2021, 9:17 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

انسان کو اچھی توقع وابستہ رکھنی چاہئے مگر ۲۰۲۱ء کے پس منظر میں نیا سال کوئی خاص حوصلہ نہیں دیتا۔ مضمون نگار نے اسی نکتے کو اُجاگر کیا ہے۔

According to people, the last two years were the same, they do not think of different years. The year 2020 began with the outbreak of Corona
بقول شخصے گزشتہ دو سال ایک جیسے تھے، ان پر الگ الگ سال کا گمان نہیں ہوتا۔ ۲۰۲۰ء کی ابتداء کورونا کی وباء سے ہوئی تھی

بقول شخصے گزشتہ دو سال ایک جیسے تھے، ان پر الگ الگ سال کا گمان نہیں ہوتا۔ ۲۰۲۰ء کی ابتداء کورونا کی وباء سے ہوئی تھی، ۲۰۲۱ء کا اختتام کورونا کی وباء پر ہورہا ہے۔ لیکن، مماثلت اور یکسانیت کی یہی ایک وجہ نہیں ہے۔ داخلی ہلچل اور بے چینی، سرحد پر کشیدگی اور ۲۰۱۷ء سے معاشی حالات بھی دونوں برسوں میں ایک جیسے رہے۔ ان حالات میں سوال یہ ہے کہ نئے سال یعنی ۲۰۲۲ء سے کیا اُمید وابستہ کی جائے؟
 اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی شروعات ہمیں وہاں سے کرنی چاہئے جہاں وقت منجمد ہوگیا ہے۔ کشمیر۔ ہم نے کشمیری عوام کو حاصل آئینی ضمانت ختم کردی اور اس کے بدلے میں اُنہیں کچھ بھی بہتر کرکے نہیں دیا۔ آج ’ریاست‘ میں اُن کی اپنی منتخبہ حکومت نہیں ہے (اس اعتبار سے یہ ملک کا اکلوتا حصہ ہے)۔ کسی نے بھی وہاں سرمایہ کاری نہیں کی ہے۔ پنڈتوں کو واپسی کا موقع نہیں ملا ہے اور تشدد ختم نہیں ہوا ہے۔ اختتام پزیر سال میں وہاں سالہائے  گزشتہ (۲۰۱۱ء تا ۲۰۱۵ء) کے مقابلے میں زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور اس میں کمی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اب کشمیر میں ہماری دلچسپی کم ہوگئی ہے اور ہم دیگر اُمور میں مصروف ہوگئے ہیں۔ چند ہی لوگوں کو علم ہوگا کہ سری نگر کی جامع مسجد نمازِ جمعہ کیلئے اب بھی بند ہے۔ حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر مسجد کھولی گئی تو لوگ جمع ہوں گے اور اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرینگے۔ ۲۰۲۲ء میں زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ حالات برقرار رہیں کیونکہ کشمیر کیلئے ہمارا کوئی ٹھوس پلان، کم از کم اِس وقت، سامنے نہیں ہے۔
 جہاں تک لداخ کا تعلق ہے، اگر حالیہ خبروں پر بھروسہ کیا جائے تو چین سے ہمارا جو بھی معاہدہ ہوگا وہ بیجنگ کی شرطوں پر ہوگا کیونکہ ہم نے اب تک یہ تسلیم ہی نہیں کیا ہے کہ چین نے دراندازی کی ہے۔ ہماری جانب سے چین پر کوئی دباؤ بھی نہیں ہے کہ وہ فروری ۲۰۲۰ء سے قبل کی حالت پر لوَٹے۔ لداخ کی پہاڑیاں اور وہاں کے راستے خاصے مشکل اور پیچیدہ ہیں۔ بودوباش یا فوجی تعیناتی بھی تکلیف دہ اور صبر آزما ہے لہٰذا دونوں جانب کے ہزاروں فوجی جو لداخ میں تعینات ہیں، موسم کی سختی برداشت کررہے ہیں۔ چونکہ بیجنگ جو چاہتا تھا، اُسے حاصل ہوگیا ہے یعنی اُس حصے یا سرحد پر قبضہ جس کا دعویٰ ۱۹۵۹ء میں کیا گیا تھا، اس لئے ۲۰۲۲ء میں ہند چین سرحد پر کشیدگی کم ہونے کا امکان ہے۔ جو معدودے چند لوگ جو حفاظتی اُمور پر قلم اُٹھاتے ہیں اسے نقصان قرار دیں گے مگر چونکہ اب سیاسی بیانیہ حکومت طے کرتی ہے اس لئے اس ’نقصان‘ کا زیادہ چرچا نہیں ہوگا، یہ طے ہے۔ دریں اثناء چین کے خلاف امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان سے ہمارا اتحاد کم و بیش ختم ہوچکا ہے جبکہ امریکہ نے چین کے خلاف آسٹریلیا اور برطانیہ سے ہاتھ ملا لیا ہے۔ 
 معاشی اُمور جیسے بھی ہیں، حکومت پر کوئی دباؤ نہیں ہے کہ فعالیت کا مظاہرہ کرے اور معیشت کو پٹری پر لائے۔ یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ معیشت کا زوال جنوری ۲۰۱۸ء سے نوٹس کیا جارہا ہے جو وبائی حالات کے دو سال اور تین ماہ کے دوران بھی جاری رہا مگر جو معاشی مسائل ہمارے سامنے ہیں ان کا وبائی حالات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ آئندہ سال ہماری جی ڈی پی اُتنی ہی رہ سکتی ہے جتنی کہ وبائی حالات سے پہلے تھی۔ یہاں یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ وبائی حالات سے پہلے بھی ہم معاشی حالات سے جوجھ ہی رہے تھے اس لئے وہی صورت حال برقرار رہ سکتی ہے۔ اس (صورت حال) کے جو اسباب ہیں اُن میں سے دو ایسے ہیں جو ماہرین معاشیات کو مخمصے میں ڈالے رہیں گے۔ پہلا یہ کہ ہندوستان میں روزگار تلاش کرنے والوں اور روزگار سے جڑے ہوئے لوگوں کی شرح دُنیا کی کم ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔ دوسرا یہ کہ عوام کے ذریعہ اشیاء کا صَرف (پرائیویٹ کنزمپشن) جو کہ جی ڈی پی کا سب سے بڑا جزو ہوتا ہے، اب بھی وبائی حالات سے قبل جیسا ہے۔ اس میں کوئی نمایاں تبدیلی رونما نہیں ہورہی ہے۔ 
 سیاسی محاذ پر کافی سے زیادہ سرگرمیاں جاری ہیں۔ جن ریاستوں میں نئے سال کے اوائل میں اسمبلی انتخابات ہوں گے اُن میں گجرات میں گزشتہ ربع صدی سے بی جے پی کا غلبہ ہے۔ یوپی میں اسے کم و بیش ۴۰؍ فیصد ووٹ حاصل ہوچکے ہیں۔ ان دو ریاستوں میں اس کا اقتدار برقرار رہ سکتا ہے۔ نئے سال ہی میں صدارتی انتخاب بھی ہونا ہے۔ اس کے علاوہ کیا رہ جاتا ہے؟ ہاں، پارلیمنٹ کی نئی عمارت، سینٹرل وِسٹا، کا نئے سال میں افتتاح ہوسکتا ہے۔ اگر پورے کامپلیکس کا نہیں تو اس کے کچھ حصے کا افتتاح تو ہو ہی جائیگا۔ نئے سال میں ایودھیا کا تعمیراتی کام بھی کافی حد تک ہوچکا ہوگا چنانچہ ۲۰۲۲ء میں کئی موقعے آئیں گے جب دھوم دھڑکے سے بہت کچھ ہوگا جیسا کہ جاری سال میں ہم نے کاشی میں دیکھا۔ 
 فی الحال طویل مدتی احتجاج ملک میں بہت کم ہورہا ہے چنانچہ ۲۰۲۰ء کے آغاز کے بعد یہ اس نوع کا پہلا موقع ہے۔ مگر، شمال مشرق میں افسپا (شورش زدہ علاقوں میں فوج کے خصوصی اختیارات کا قانون) کو ہٹانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ حکومت کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس خطے میں امن و امان برقرار رہے۔ ناگالینڈ اسمبلی نے ریاست میں افسپا کے جاری رہنے کے خلاف اتفاق رائے سے ایک قرار داد منظوری کی ہے۔ اتفاق رائے کا اظہار کرنے والوں میں بی جے پی کے اراکین اسمبلی بھی شامل ہیں۔ اگر اس قرارداد کے باوجود مرکز افسپا کو جاری رکھتا ہے تو یہ جمہوریت پر بڑا تبصرہ ہوگا۔
 ۲۰۲۲ء میں بھی وبائی حالات جاری رہ سکتے ہیں مگر زیادہ امکان یہ ہے کہ اب ۲۰۲۰ء اور ۲۰۲۱ء جیسی کیفیت نہیں ہوگی۔ البتہ اسکول کے بچوں کا جو تعلیمی نقصان ہوا، وہ ہنوز جاری ہے اور جاری رہ سکتا ہے۔ اس پر کم لوگ توجہ دے رہے ہیں کہ اس سے ملک کا کتنا نقصان ہورہا ہے۔ کل جس نسل کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے اگر اس کا دو دو سال کا تعلیمی نقصان ہو تو پھر کیا ہوگا؟
 ملک کیلئے گزشتہ چار سال بے حد سخت رہے ہیں۔ دُعا کیجئے نئے سال میں حالات بہترہوں اور عوام کی تکالیف ختم ہوں ۔n 

new year Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK