Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

Updated: January 01, 2022, 8:51 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

جو لوگ ساٹھ سال کے ہیں انہوں نے ساٹھ یا انسٹھ سال ختم ہوتے اور اتنے ہی نئے سال آتے ہوئے دیکھے۔ جس کی عمر جتنی ہوتی ہے وہ اتنے پرانے اور اتنے ہی نئے سال دیکھ چکا ہوتا ہے۔ ان میں بہت کم لوگ گزرے ہوئے ہر سال کو اپنی کاوشوں سے یاد رکھتے ہیں۔

Days turn into weeks, weeks into months, and months into years. No one remembers them
دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سال میں ڈھل جاتے ہیں۔ انہیں کوئی یاد نہیں رکھتا

 ایسی کوئی کہانی ہوسکتی ہے؟ملاحظہ کیجئے: ’’نیا سال آیا تو پرانے سال جو تین سو پینسٹھ دن کی اپنی میعاد کے مکمل ہوجانے کے بعد سے تاریخ کے غار کے تنگ و تاریک گوشوں میں دُبکے پڑے تھے، اچانک باہر آئے کیونکہ ابھی ابھی ختم ہونے والا سال اُن سے جاملا تھا۔ یہ یہاں کی روایت تھی۔ اُن کے درمیان آنے والے سال کا وہ اسی طرح خیرمقدم کیا کرتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے مجمع ہوگیا۔ پرانے سے پرانا سال، صدیوں پہلے کا سال، دہائیوں پہلے کا سال، پچھلی دہائی کا سال، جاری دہائی کا سال، سب کو اُن کے چہروں سے پہچانا جاسکتا تھا۔ صدیوں پرانے سال ضعف سے بے حال تھے، وہ اُس غار کے بزرگ ترین شہری تھے۔ اُن کے قریب ہی وہ سال تھے جو اِتنے بزرگ نہیں تھے۔ پھر وہ تھے جو ابھی جوان ہیں۔ پھر وہ جنہیں اس غار میں آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ یہاں وہ  نوجوان کہلاتے تھے۔ اس کے بعد وہ جو ’’تازہ واردانِ غار‘‘ تھے۔ یہ ابھی ابھی یہاں آئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہاں موجود ہر سال کے پاس ہزاروں کہانیاں ہیں۔ کوئی سننا چاہے تو سنتا ہی چلا جائیگا۔
 ایک دن انہیں یہ علم ہوا کہ کرۂ ارض پر نئی تکنالوجی کی برکات سے ہزاروں سال کا ڈیٹا محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ یہ سنتے ہی ان کی باچھیں کھل گئیں۔ انہوں نے طے کیا کہ اپنا ایک نمائندہ دُنیا میں بھیج کر ان سب کے پاس موجود کہانیوں کا ڈیٹا محفوظ کیا جائے۔ اس پر ایک میٹنگ کے بعد دوسری میٹنگ ہوئی۔ دوسری کے بعد تیسری۔ پھر اس بستی کے ایک شہری (سال) کو بطور نمائندہ منتخب کیا گیا کہ یہ کرۂ ارض پر جائے اور یہ معلوم کرے کہ ڈیٹا بیس محفوظ کرنے کیلئے کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ کیا ہزاروں سال کا ڈیٹا بیس محفوظ کیا جاسکتا ہے؟ اس پر کتنا خرچ آئے گا اور اس کیلئے زمین پر اُتر کر کہانیاں سنانی پڑیں گی یا تکنالوجی کا کوئی ماہر زمین سے اس غار میں آئے گا اور کہانیاں سن سن کر انہیں محفوظ کرے گا؟
  غار کا یہ شہری (پرانا سال) منصوبے کے مطابق زمین پر آیا، اس نے تکنالوجی کے ایک ماہر سے رابطہ کیا اور اُسے اپنے منصوبے سے آگاہ کیا۔ تکنالوجی کے ماہر نے تمام باتیں بغور سنیں اور اپنے مہمان کی ضیافت کرنے کے بعد کہا: ’’تکنالوجی کی زبان میں ایک لفظ  ہے جنک۔ سالہا سال کی کہانیوں میں بہت سا جنک ہے۔ ہم اسے محفو ظ کرکے سائبر اسپیس کو جام نہیں کرنا چاہتے۔ آپ کو زحمت ہوگی مگر یہ ضروری ہے کہ آپ سال بہ سال ایسے واقعات نوٹ کروائیں جن میں انسانیت کی فلاح کیلئے کچھ کیا گیا ہو۔‘‘ 
 تاریخ کے غار سے آئے ہوئے نمائندے کے چہرے پر مایوسی پھیل گئی۔ اس نے پوچھا: ’’کیا انسانیت کی فلاح کے علاوہ جو کچھ ہے سب جنک ہے؟‘‘ تکنالوجی کے ماہر نے جواب دیا: ’’جی ہاں، عنقریب وہ دور آئیگا جب مشینیں انسانوں کو بہت سے کاموں سے فارغ کرچکی ہوں گی مگر چونکہ مشینیں انسان نہیں ہیں اس لئے اُن میں انسانیت پر مبنی واقعات فیڈ کرنے پڑیں گے، ہمیں ہزارہا سال کے اُس غار سے جہاں سے آپ تشریف لائے ہیں، ایسے ہی واقعات کی ضرورت ہے بلکہ سچی بات یہ ہے کہ ہم ، آپ جیسے کسی نمائندہ کا شدت سے انتظار کررہے تھے۔‘‘ 
 غار سے آئے ہوئے نمائندے کے چہرے پر پہلے سے زیادہ مایوسی چھا گئی۔ اُسے غار کے سینے میں محفوظ ہزاروں کہانیوں کے جنک قرار دیئے جانے پر افسوس تھا۔ اسی افسوس نے مایوسی کی شکل اختیار کرلی تھی۔بھاری قدموں سے واپس جانے سے پہلے اس نے تکنالوجی کے ماہر سے اتنا ہی پوچھا: ’’کیا انسانیت کے واقعات کے علاوہ اور کوئی شے تکنالوجی کو درکار نہیں؟‘‘ تکنالوجی کا ماہر اس سوال کا جواب دینے کیلئے شاید پہلے سے تیار تھا۔ اس نے کہا: ’’ہاں، ہزاروں سال کی کہانیوں میں سے ایسی کہانیوں کو الگ کردیجئے جن میں حوصلہ ہو، اُمنگ ہو، اُمید ہو، بردباری اور معاملہ فہمی ہو، حکمت اور تدبر ہو اور تاریکی کے خلاف روشنی کی جدوجہد ہو۔‘‘ 
 پتہ نہیں یہ کہانی، کہانی جیسی ہے یا نہیں، مگر گزرنے والے ہزاروں سال کی کہانیوں کا خلاصہ یہی ہے کہ دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سال میں ڈھل کر گزر جاتے ہیں۔ انہیں کوئی یاد نہیں رکھتا۔ جو چیز یاد رکھی جاتی ہے یا باقی رہ جاتی ہے وہ وہی ہے جو تکنالوجی کے ماہر نے بیان کی۔ آل احمد سرور نے کہا تھا: ’’بارے دُنیا میں رہو غمزدہ یا شاد رہو=ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو!‘‘ دُنیا کچھ کر گزرنے والوں کو یاد رکھتی ہے، یاد رکھنا چاہتی ہے، باقی سب کچھ تکنالوجی کی زبان میں ’جنک‘ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جنک میں وہ بھی شامل ہوتا ہے جس میں ہم سمجھتے ہیں کہ فروغ انسانیت کا کوئی کارنامہ ہے مگر وقت اسے کارنامہ تسلیم نہ کرتے ہوئے جنک کے خانے میںڈال دیتا ہے، بہت کچھ ایسا بھی ہوتا ہے جسےبزعم خود حوصلہ ، اُمنگ، اُمید، بردباری، معاملہ فہمی، حکمت، تدبر اور تاریکی کے خلاف روشنی کی جدوجہد سمجھا جاتا ہے مگر وہ جنک میں چلا جاتا ہے کہ اس میں یا تو خلوص نہیں تھا یا اُمید تھی تو نا اُمیدی سے مشابہ تھی، حوصلہ تھا تو اس میں کچھ کمی تھی، حکمت تھی مگر ناپختہ تھی، تاریکی کے خلاف جدوجہد تھی مگر جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانے کا عزم کم تھا۔ ا س کی وجہ یہ ہے کہ تاریخ ایسا بے رحم منصف ہے جو بڑی سخت کسوٹیوں پر کاوشوں کو پرکھتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ خلوص کو پرکھتا ہے۔ وہ مورخوں کے عدم خلوص، جھوٹ اور ریاکاری کو بھی طشت از بام کردیتا ہے۔ فروغ انسانیت کے نام پر ننگ انسان یا ننگ آدم کو بھی ظاہر کردیتا ہے۔ 
 نئے سال کی آمد پر ’’نئے سال کا عزم‘‘ کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات فہرست ِعزائم تیار کی جاتی ہے۔ اتنی بڑی منصوبہ بندی پر ایک بہت چھوٹا سا فیصلہ غالب آسکتا ہے۔ وہ یہ کہ اپنا وقت، اپنی فکر، اپنے منصوبوں اور اپنی کاوشوں میں سے ہر اُس شے کو پہلے ہی الگ کرلیں گے جو جنک ہے یا ہوسکتی ہے۔ لوگ اُس غذا کو جس میں غذائیت کم ہوتی ہے، جنک کہتے ہیں مگر اُس وقت کو جنک نہیں کہتے جو غیر پیداواری طور پر گزرتا ہے، اُن مشاغل کو جنک نہیں کہتے جن سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور اُن جذبوں کو جنک نہیں سمجھتے جن سے کسی کا فائدہ تو کیا اپنا بھی نقصان ہوتا ہے۔ مشینی دور میں انسان چونکہ بہت ’مصروف‘ ہے اسلئے اپنے جنک پر غور نہیں کرتا حالانکہ کمپیوٹر صاف کرنے کیلئے بہترین ’ڈی جنک سافٹ ویئر‘ کا استعمال کرتا ہے۔

new year Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK