EPAPER
Updated: March 07, 2021, 5:58 PM IST
| Aakar Patil
کئی عالمی انڈیکس ایسے ہیں جن کے ظاہر کردہ نتائج کی وجہ سے وطن عزیز کی شبیہ خراب ہوئی ہے۔ ہمیں ان جدولوں میں بہتر مقام نہیں مل سکا۔ اس کیلئے محاسبہ ہونا چاہئے، انکار نہیں۔
سال۲۰۲۰ء میں مودی حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ مختلف عالمی معیارات (اِنڈائسیس) پر ہندوستان کی شبیہ کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ ان کسوٹیوں پر پرکھے جانے کے بعد الگ الگ ایجنسیوں کی رپورٹس کے ذریعہ جو تاثر منظر عام پر آرہا تھا وہ طرز حکمرانی کے نقائص کو ظاہر کررہا تھا۔ وطن عزیز کو مختلف معیارات پر پرکھنے والوں میں غیر سرکاری تنظیمیں، کثیر قومی ادارے مثلاً اقوام متحدہ اور ایسے دیگر ادارے شامل ہیں جو خاصے مشہور ہیں مثلاً ورلڈ اکنامک فورم اور دی اکنامسٹ۔ یہی نہیں بلکہ ہماری حکومت کو اُس کے اپنے ظاہر کردہ اعدادوشمار اور بیان کردہ حقائق کی روشنی میں بھی جانچا اور پرکھا گیا ہے۔ حکومت کو پریشانی اس بات کی تھی کہ اکثر کسوٹیوں پر پرکھے جانے کے بعد اس کے تعلق سے جو رائے منظر عام پر آرہی تھی وہ اطمینان بخش یا قابل فخر نہیں تھی۔ اب بھی یہی صورتحال ہے۔ حکومت متفکر ہوئی اس کا ثبوت اس کے اپنے اعلامیہ سے ملتا ہے جو ۱۰؍ جولائی کو اس عنوان کے ساتھ جاری کیا گیا تھا: ’’نیتی آیوگ کے زیر اہتمام ۲۹؍ منتخب کسو ٹیوں کا جائزہ لینے کیلئے ورچوئل ورکشاپ کا انعقاد۔‘‘ اس ورکشاپ میں یہ طے کیا گیا کہ حکومت تمام ۲۹؍ عالمی کسوٹیوں کے تعلق سے ایک مجموعی اور جامع رپورٹ (ڈیش بورڈ) تیار کرے گی تاکہ عالمی ادارے اور تنظیمیں جو تاثر پیش کررہی ہیں اُن کا حکومت کے پاس موجود تفصیل سے جائزہ لیا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ مذکورہ ادارے اور تنظیمیں جو رائے قائم کررہی ہیں وہ کن تفاصیل کی بنیاد پر ہیں نیز اُن کا ذریعہ کیا ہے۔ جائزہ لینے کی اس کوشش کامقصد عالمی جدولوں میں ہندوستان کی درجہ بندی کو بہتر بنانا ہی نہیں بلکہ اپنی کارکردگی کو سنوارنا اور اصلاحات کو جاری رکھنا ہے تاکہ بیرونی سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جاسکے اور عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ بہتر بنے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت یہ سمجھ رہی تھی کہ مسئلہ اُس کی شبیہ کا ہے نہ کہ حقیقت حال کا۔ اس کے ایک ماہ بعد جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت ’’۲۹؍ عالمی کسوٹیوں پر اپنی شبیہ بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ ہر خاص و عام اچھی طرح جان لے کہ حقائق کیا ہیں۔‘‘ اس کیلئے فیصلہ کیا گیا کہ بہت بڑے پیمانے پر تشہیری مہم چلائی جائیگی جو ملک کے بارے میں قائم ہونے والے تاثر کی تشکیل میں معاون ہو گی۔ یہ کام اشتہارات اور وزارتوں کی مائیکروسائٹس کے ذریعہ جاری رکھا جائے گا۔ یہی نہیں بلکہ اُن مسائل، کسوٹیوں اور ڈیٹا حاصل کرنے کے ذرائع کو بھی اُجاگر کیا جائے (تاکہ یہ واضح کیا جاسکے کہ مسئلہ کہاں پر ہے)۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس سے مسئلہ حل ہوجائیگا؟
جی نہیں۔ مسئلہ نہ تو قائم ہونے والے تاثر کا ہے نہ ہی کسی جانبداری کا۔ مسئلہ زمینی حقائق کا ہے۔ دُنیا جان بوجھ کر ہماری شبیہ خراب کرنے پر تُلی ہوئی نہیں ہے۔ چنانچہ مسئلہ کا حل اس اعتراف میں پوشیدہ ہے کہ وطن عزیز کی کارکردگی۲۰۱۴ء کے بعد سے کئی محاذوںپر پست ہوتی جارہی ہے اور ان محاذوں پر صورتحال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تشہیری مہم پر خرچ کرنے سے اعدادوشمار نہیں بدل جائینگے۔ اگر حکومت مذکورہ ایجنسیوں اور اداروں کی حاصل کردہ تفصیل اور ڈیٹا کو ناقص یا بے بنیاد قرار دینا چاہے گی تو اس کی وجہ سے بھی اُن کی رائےتبدیل نہیں ہوگی جنہوں نے جمع شدہ حقائق کو جانچا پرکھا اور اس کی بنیاد پر رائے قائم کی۔
وزیر اعظم مودی کے اقتدار میں ہندوستان کی درجہ بندی چھ کسوٹیوں پر خراب ہوئی جن کا تعلق شہری آزادی اور اقلیتی حقوق سے ہے۔ اُن پانچ کسوٹیوں پر بھی ابتر ہوئی جن کا تعلق صحت اور خواندگی سے ہے۔ اُن دو کسوٹیوں پر بھی ناقص رہی جن کا تعلق انٹرنیٹ پر عائد ہونے والی پابندی سے ہے۔ مزید چار ایسی کسوٹیاں ہیں جن پر کسی ملک میں قانون کی بالادستی اور بدعنوانی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ایسی اور بھی کئی کسوٹیاں ہیں۔
اداروں اور تنظیموں کے پیش کردہ ریکارڈس کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان سے نہ تو بحث کی جاسکتی ہے نہ ہی اختلاف۔ جس رفتار سے حالات میں خرابی آئی ہے وہ سب پر ظاہر ہے۔ اس کے باوجود حیرت انگیز ہے کہ حکومت نے اس خرابی کو دور کرنے کیلئے یہ فیصلہ کیا کہ بڑے پیمانے پر تشہیری مہم جاری کی جائے گی جبکہ اس سے بہتر فیصلہ یہ ہوسکتا تھا کہ حکومت اعلان کرتی کہ جن خرابیوں اور نقائص نیز حالات کی ابتری کی بات کی جارہی ہے وہ سب کا سب مودی کے اقتدار میں نہیں ہوا۔ مسئلہ کا مکمل طور پر انکار مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتا۔ یہ تو راہ فرار ہوئی۔ حل ’’شبیہ کی اصلاح‘‘ میں تلاش کیا گیا جبکہ حل ’’حکمرانی کی سطح پر کارکردگی کو بہتر بنانے میں‘‘ مضمر تھا۔ تشہیری مہم سے کوئی بڑا فائدہ نہیں ہوا چنانچہ حکومت نے اپنی حکمت عملی پھر بدلی۔ اب مختلف وزارتوں سے کہا گیا کہ وہ ڈیٹا اَپ ڈیٹ کرنے میں تاخیر نہ کریں ۔ یہ فیصلہ اس اطمینان پر مبنی تھا کہ حکومت سب کچھ ٹھیک ٹھیک کررہی ہے، مسئلہ صرف اُس تاثر کا ہے جو غلط بنیادوں پر قائم کیا جارہا ہے۔
تازہ ترین رپورٹ فریڈم ہاؤس کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ہندوستان آزاد نہیں بلکہ جزوی طور پر آزاد ہے۔‘‘ یہ تاثر بھی خیال آرائی نہیں بلکہ کئی کسوٹیوں کی بنیاد پر قائم کیاگیا ہے۔ ہمارا کہنا ہے کہ ہم جمہوری ملک ہیں۔ فریڈم ہاؤس اس سے اتفاق کرتا ہے۔ سیاسی حقوق کے معاملے میںاس نے ہندوستان کو ۴۰؍ میں سے ۳۴؍ مارکس جبکہ آزاد اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کیلئے پورے پورے مارکس دیئے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم سیاسی حقوق کے معاملے میں بہت کچھ ٹھیک ٹھاک کرتے ہیں مگر فریڈم ہاؤس سیاسی حقوق کو صرف ۴۰؍ فیصد اہمیت دیتا ہے۔ بقیہ ۶۰؍ فیصد شہری حقوق کیلئے مختص کرتا ہے۔ اس کے ذیل میں ہمیں صرف ۳۳؍ (۶۰؍ میں سے) نمبرات ملے ہیں۔ ہماری ریٹنگ قانون کی بالادستی، این جی اوز کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت، مذہبی اُمور، اظہار رائے کی آزادی، فرقہ وارانہ تشدد اور اپوزیشن کو اپنی طاقت بڑھانے کے مواقع جیسے معیارات پر کم ہوئی ہے۔
کیا ۶۰؍ فیصد کے زمرہ میں آنے والے موضوعات پر حکومت کی کارکردگی سے انکار کیا جاسکتا ہے؟ ظاہر ہے یہاں انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ کئی جدولوں میں اُس مقام کا نہ ملنا جو ہمیں ملنا چاہئے، محاسبہ کی دعوت دیتا ہے۔ مگر ہماری حکومت ملک کے حالات کے اعتراف اور اُن کی بنیاد پر بننے والے جدولوں کے انکار کے ذریعہ ملک کی شبیہ کو مزید متاثر کررہی ہے جس کا نوٹس لیا جارہا ہے جبکہ اندرون ملک ایسا ماحول ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔