Inquilab Logo Happiest Places to Work

یہ بھی تھا عظیم اور بے مثال گلوکار محمد رفیع کا کمال

Updated: December 24, 2021, 1:07 PM IST | Manzoor Ahmad Hashmi | Nanded

ایک ہی گیت میں دو الگ اداکاروں کیلئے دو الگ آوازیں

Muhammad Rafi had so many qualities as a playback singer that it is difficult to count them..Picture:INN
محمد رفیع میں بطور پلے بیک سنگر اتنی خوبیاں تھیں کہ انہیں گننا مشکل ہے۔ تصویر: آئی این این

عام طورپر دوگانہ یا ڈوئیٹ کا لفظ آتے ہی یہ بات ذہن میںآتی ہے کہ یہ ضرور مرد و خاتون گلوکار کا گایا ہوا گیت ہوگا۔ لیکن ہماری فلموں میں آپ کو ایسے بھی سیکڑوں نغمے مل جائیں گے جنہیں دو دو تین تین یا چا ر چار گلوکاروں نے مل کر گایا ہے۔ جب ہم ایسے گانوں کی فہرست پر نظر ڈالتے ہیں تو اس  زُمرے میں بھی رفیع صاحب سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ مرد گلوکاروں کے ساتھ بھی ان کے بے شمار ’’دوگانے‘‘ اور ’’سہ گانے‘‘ بےحد کامیاب ہوئے ہیں۔
  غالباً یہ بہت کم لوگوں کے علم میں ہو کہ رفیع صاحب کے آئیڈیل کے ا یل سہگل نہیں بلکہ غَلام محمد درّانی عرف جی ایم د رّانی تھے جن کی آواز رفیع صاحب سے کافی مشابہت رکھتی تھی۔ ۴۵۔۱۹۳۵ء کے دوران جی ایم درّانی بہت بڑا نام تھا۔ رفیع صاحب ان کی آواز سے کافی متاثر تھے اور ابتداء میں اُنہی کی نقل کیا کرتے تھے۔
 یوں تو رفیع صاحب کے فلمی سفر کا آغاز پنجابی فلم ’’ گل بلوچ ‘‘سے ہوا تھا، جو ۱۹۴۱ء میں آئی تھی لیکن ان کی پہلی ہندی فلم ’’ گاؤں کی گوری‘‘ تھی جو ۱۹۴۵ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ دلچسپ بات دیکھئے کہ اس فلم میں بھی رفیع صاحب کی زندگی کا پہلا ہندی گانا ایک ڈوئیٹ ہی تھا جس میں ساتھی گلوکارکوئی خاتون نہیں بلکہ جی ایم درّانی تھے۔ اس کی پہلی لائن کچھ اس طرح تھی ’’ دل ہوقابو میں تو دلدار کی ایسی تیسی‘‘۔ اس فلم کے موسیقار شیام سندر اور نغمہ نگار ولی صاحب تھے۔ کچھ حضرات کو یہ  غلط فہمی بھی ہے کہ رفیع صاحب کی پہلی ہندی فلم ’’ پہلے آپ‘‘ تھی۔ یہ درست نہیں ہے کیونکہ ’’گاؤں کی گوری ‘‘ ۱۹۴۴ء میں مکمل ہونے کے باوجود کسی وجہ سے کچھ تاخیر سے ۱۹۴۵ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ ’’ پہلے آپ ‘‘ میں بھی رفیع صاحب کے ساتھ ایک نہیں دو بلکہ گلوکار شیام کا ر اور علاؤ الدین تھے۔ وہ ’’سہ گانا‘‘ کچھ اس طرح تھا: ہندوستاں کے ہم ہیں ہندوستاں ہمارا۔
  رفیع صاحب کے ساتھ تقریباً ہر گلوکار (مرد) کے نغمے موجود ہیں جن میں منّاڈے، طلعت محمود، بلبیر، سی رامچندر، مکیش، مہندر کپور، کشور کمار، بھوپیندر، شیلندر سنگھ، شنکر شمبھو، خان مستانہ، جی ایم درّانی، ہیمنت کمار، نتن مکیش، نریندر چنچل، عزیز نازاں، آرڈی برمن ، جانی بابو قوال، منہر وغیرہ کے نام نمایاں نظرآتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ (۱۰۹) گیت مناڈے کے ساتھ ہیں۔ لیکن ان میں وہ گانے بھی شامل ہیں جن میں ر فیع اور مناڈے کے علاوہ خاتون گلوکاروں کی آوازیں بھی شامل ہیں اس لئے ہم ایسے گانے زیر نظر مضمون میں شامل نہیں کریں گے۔
  رفیع / مناڈے کے چند قابل ذکر گیت اس طرح ہیں: واقف ہوں خوب عشق کے طرزِ بیاں سے میں ( فلم بہوبیگم)، اک جانب شمعِ محفل ( ابھیلاشا)، طاقت وطن کی ہم سے ہے ( پریم پجاری )، پھر تمہاری یادآئی اے صنم ( رستم سہراب۔ یہ ایک سہ گانا ہے جس کےتیسرے گلوکار سعادت خان تھے)، ہوکے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا ( حقیقت۔ اس میں دیگر گلوکار طلعت محمود اور بھوپیندر تھے، یہ دو دیوانے دل کے (جوہر محمودان گوا)، بڑے میاں دیوانے ( شاگرد۔  اس میں آئی ایس جوہر بھی گاتے ہوئے نظرآئیں گے)، اے دوست میرے میں نے دنیا دیکھی ہے (سچائی )، اور، سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ( شہید۔ اس میں بھی ایک اور غیر معروف گلوکار راجندر مہتا ہیں)۔
 دوسرے نمبر پر کشور کمار ہیں جن کے ۶۸؍ گانے رفیع صاحب کے ساتھ ہیں۔ پہلی مرتبہ فلم ’’مالکن ‘‘ کے لئے یہ دو عظیم گلوکار یکجا ہوئے جو ۱۹۵۳ء میں آئی تھی۔ اس کا مکھڑا بھی کشورکمار کی طرح بڑا دلچسپ تھا، یعنی ’’ کہیں سے اونچی کہیں سے نیچی‘‘۔ رفیع اور کشور کے کئی گانے سپرہٹ ثابت ہوئے۔ مثلاً تیرا جلوہ توبہ ہے، بچے میں ہے بھگوان ( تیسری آواز مناڈے)، ہم پریمی پریم کرنا جانیں   (شیلندر سنگھ کے ساتھ ) ہم تینوں کی وہ یاری جو لاکھوں پر ہے بھاری ( نتن مکیش کے ساتھ )، بنے چاہے دشمن زمانہ ہمارا، میرے دلدار کا بانکپن ، اللہ اللہ ، آپ کے دیوانے ہیں، یادوں کی بارات وغیرہ۔
 رفیع صاحب کے ساتھ مکیش کے جملہ ۲۴؍ گانے ہیں، لیکن اُن کے بیشتر گانوں میں نسوانی آوازیں شامل ہیں۔ چند خاص دوگانے اس طرح ہیں: جس پیار میںیہ حال ہو اس پیارسے توبہ ( پھر صبح ہوگی) آیو آیو نوراتری تیوہار ( جوہر محمودان گوا) سات عجوبے اس دنیا میں ( دھرم ویر)، دو جاسوس کریں محسوس ( دوجاسوس) وغیرہ۔
 ذیل میں مختلف گلوکاروں کے ساتھ رفیع صاحب کے مشہور نغموں کی ایک نامکمل فہرست حاضر کی جاتی ہے:
  تونے مجھے بلایا شیراں والئے (نریندر چنچل) ، یمّا یمّا یہ خوبصورت سماں ( آرڈی برمن )، ہوکے مایوس ترے درسے ( عزیز نازاں اور شنکر شمبھو)، عاشق ہے اگر پیارے ( سی رامچندر)، ہم کو ہنستے دیکھ زمانہ جلتا ہے ( جی ایم درّانی )، حسن ترا اک چھلکتا جام ہے ( منہر)، پردے میں بیٹھا کوئی ہے پردہ کرکے (شیلندر سنگھ )، آج کیوں ہم سے پردہ ہے، ایویں دنیا دیوے دہائی جوٹھا پوندی شور (بلبیر)، کیسی حسین آج بہاروں کی رات ہے ( مہیندر کپور/ طلعت محمود)، آج میرے یار کی شادی ہے (دیون ورما اور روی کے ساتھ ) اور یہ مانا مری جاں محبت سزا ہے ( بلبیرکے ساتھ ) وغیرہ۔
  اس بات کا ذکر بھی یقیناً دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ کچھ دوگانے توایسے ہیں جن میں ساتھی گلوکار بھی خود رفیع صاحب تھے۔ یعنی اسکرین پر بیک وقت دو مختلف اداکاروں کے لئے انہوںنے دو الگ الگ موڈ میں گانے گائے ہیں۔ ایک کے لئے کامیڈی موڈ ہے تو دوسرے کے لئے رومانٹک موڈ۔ اس گانے کا مکھڑا اس طرح تھا: ’’کتنی جواں ہے زندگی کتنی جواں بہار‘‘ ( فلم شہنائی ۱۹۶۴ء)۔ دو اداکاروں کے نام ہیں جانی واکر اور بسواجیت۔
  مختصر یہ کہ محمد رفیع میں بطور پلے بیک سنگر اتنی خوبیاں تھیں کہ انہیں گننا مشکل ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی پوری دنیا میں ان کے کروڑوں مداح موجود ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK