Inquilab Logo Happiest Places to Work

رفیع صاحب کے شیدائی بینو نائر کی ’’رفیع دوستی‘‘ نصف صدی پر محیط ہے

Updated: December 24, 2021, 1:14 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

رفیع صاحب سے متاثرہوکر پوری زندگی ان کیلئے وقف کرنےوالےبوریولی کے ۶۵؍سالہ بینونائر نے بتایاکہ بالی ووڈ کیلئے رفیع صاحب کی خدمات کو عالمی سطح پر اُجاگرکرنےکیلئے ۲۰۰۸ءمیں رفیع فائونڈیشن کی بنیاد ڈالی تھی۔جس کے زیر اہتمام ہر سال ان کی یوم پیدائش پر رومانٹک رفیع یا ایک شام محمد رفیع کےنام سےموسیقی کا پروگرام منعقد کرتے ہیں ۔

Binu Nair.Picture:INN
بینو نائر۔ تصویر: آئی این این

ہندی فلموںمیں کئی دہائیوں تک اپنی آواز کا جادوبکھیرنے والے عظیم گلوکارمحمد رفیع صاحب ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کی دل پزیر آواز اور ان کی قدآور شخصیت اب بھی ہندوستان ہی نہیں پوری دنیامیں انہیں زندہ رکھے ہوئےہے۔ان کے چاہنےوالوںکی طویل فہرست ہےمگر ان کےکچھ مداح ایسےہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی ان سے منسوب کردی ہے ۔ ا ن ہی میں بوریولی کے ۶۵؍ سالہ بینونائر شامل ہیں جو ۱۵؍سال کی عمر سے رفیع صاحب کےمداح ہیں، اس طرح اُن کی اب تک کی زندگی کی پوری نصف صدی ’’رفیع دوستی‘‘ میں گزری ہے ۔ بالی ووڈ کیلئے رفیع صاحب کی خدمات کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے کیلئے ۲۰۰۸ء میں بینو نائر نے رفیع فائونڈیشن کی بنیاد ڈالی تھی جس کے زیر اہتمام ہر سال محمدرفیع کے یوم پیدائش (۲۴؍دسمبر ) پر وہ ’رومانٹک رفیع‘ یا’ ایک شام محمد رفیع کےنام‘ سے شاندار تقریب ِ موسیقی منعقد کرتے ہیں جس میں رفیع صاحب کےیادگار اورمقبول نغموں کے ذریعے انہیں یاد کیا جاتا ہے۔ رفیع صاحب سے اپنی محبت اور عقیدت کے تعلق سے بینونائر نےبتایاکہ’’میں ۹؍ویں جماعت میں زیر تعلیم تھا۔ اسکول میں فری پریڈ میں کلاس روم میں بیٹھ کر ہم کچھ ساتھی، رفیع صاحب اورکشور داکےگانے گایا کرتے تھے۔ مجھے بالخصوص رفیع صاحب کے گانے بہت پسند تھے۔ مثلاً آنےسے اس کے آئے بہار، نفرت کی دنیاکو چھوڑکراور رُخ سے ذرانقاب ہٹادو مرے حضوروغیرہ ۔ یہ ۱۹۷۰ء کی بات ہے۔ ایک دن مَیں گھر میںکشوردا کاگانا ’آن ملوسجنا‘ گنگنارہاتھا، میرےبڑی بہن کو موسیقی سےدلچسپی تھی، انہوںنے مجھے یہ گانا گاتے ہوئے سنا تو کہاکہ ’’محمد رفیع بہتر گلوکا ر ہیں۔‘‘
 اس دن سےرفیع صاحب ذہن سے دل میں اُتر گئے اورمیںرفیع صاحب کا زبردست فین ہوگیا۔ 
  اُس دور میں، بینو نائر کے گھر پر ریڈیونہیں تھا۔ لیکن رفیع صاحب کے گانے سننے کاجنون اس قدر تھاکہ جب جہاں موقع ملتا ان کےنغمے ضرور سنتے کہ اس کے بغیر اُنہیں قلبی سکون نہیں ملتا تھا۔ ۱۹۷۸ءاور ۷۹ء میں کنگز سرکل پرواقع شانمکھانند ہال میں رفیع صاحب کے نغموں کاپروگرام تھا۔ بینو نائر کے بقول ’’یہ میری خوش نصیبی تھی کہ وہاں انہیں دیکھنے اور ان کی دلکش آواز سننے کا بھی موقع ملا۔ اس کے بعد عالم یہ تھا کہ میں اور میرے گھر والے رفیع صاحب کی ہر نئی فلم کے گیتوں کابےصبری سے انتظارکرتےتھے۔‘‘ بینونائر کےمطابق ’’روزگار کےسلسلہ میں جب میں دبئی گیاتو وہاں میں نےدیکھاکہ رفیع صاحب کے مداحوںکی ایک بڑی تعداد تھی، جو ریڈیواور دیگر ذرائع سے ان کےگانے بہت شوق سے سنتی تھی۔ وہاں کےگلی محلوں میں ان کے گانوں کی دھوم تھی۔ ایف ایم چینلوں پر بھی رفیع صاحب کے نغمے خوب بجتے تھے۔ دبئی سے ممبئی ایک کام کےسلسلہ میںآنے کےبعدمیں دوبارہ دبئی گیا۔ اس دوران میں نے فیصلہ کرلیاتھاکہ ملازمت سے استعفیٰ دےکر اپنا شوق پورا کرنےکی کوشش کروںگا۔ میں نے اپنی ملازمت ترک کرنے کے بعد ۲۰۰۸ ءمیں رفیع صاحب کی فلمی خدمات کے بھرپور تعارف کیلئے عالمی سطح پر رفیع فائونڈیشن قائم کیا جس کے زیر اہتمام ان کی زندگی اور ان کے نغموں سےان کے مداحوںکو مستفیض کرنےکا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ رفیع فائونڈیشن کی شاخیں دہلی، کیرالا اور بنگلور میں بھی ہیں۔ 
 سری لنکا میں بھی رفیع صاحب کے گانوںکی دھوم ہے۔ سری لنکاکی فوج میںبھی رفیع صاحب کے گانے بہت مقبول ہیں۔ ریڈیوسیلون کےدفترمیں اب بھی رفیع صاحب کی ایک بڑی تصویر آویزاں ہے۔ ایک مرتبہ رفیع صاحب سری لنکاگئے تھے۔ ان کےپروگرام میں لاکھو ں افراد کےعلاوہ سری لنکاکے صدر جے وردھنے بھی موجودتھے۔ پروگرام کےدوران بارش ہونے لگی تو جے وردھنے نے چھتری کےسایے میں رفیع صاحب کے گانے سنے۔‘‘
 اپنے فائونڈیشن کے زیراہتمام بینو نائر فلاحی سرگرمیاں بھی انجام دیتےہیں۔ کووڈ کی وباء کےدوران موسیقی یافلم کےدیگر شعبوں سے وابستہ افراد کام نہ ہونے سے پریشان تھے اس لئے انہیں راشن دینےکے ساتھ جو لوگ کورونا سےفوت ہوگئےہیں ان کےبچوںکی تعلیم کاخرچ بھی اُٹھانے کی کوشش کی گئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK