EPAPER
Updated: November 24, 2021, 10:26 AM IST | guwahati
زرعی قوانین کی منسوخی سے حوصلہ پاکرآسام میں زائد از ۳۰؍ تنظیمیں کمر کس رہی ہیں، لکھنؤ سے مسلم خواتین نے بھی آواز اٹھائی، وزیراعظم سے متنازع قانون کی منسوخی کا مطالبہ کیا
متنازع زرعی قوانین کی منسوخی کے مودی سرکار کے اعلان نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنے والی تنظیموں کے بھی حوصلے بلند کردیئے ہیں۔ ایک طرف جہاں لکھنؤ میں شاہین باغ طرز کے مظاہروں کی قیادت کرنےو الی خواتین نے وزیراعظم نریندر مودی سے سی اے اے کو بھی منسوخ کرنے کی مانگ کی ہے وہیں آسام کی متعدد تنظیمیں سی اے اے کے خلاف نئے سرے سے احتجاج شروع کرنے کیلئے کمر کس رہی ہیں۔
آسام میں تحریک شروع کرنے کیلئے غوروخوض اور میٹنگیں
آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (آسو) سے لے کر کرشک مکتی سنگرام سمیتی (کے ایم ایس ایس ) تک متعدد تنظیمیں جو ۲۰۱۹ء میں کورونا کی وبا کے پھوٹ پڑنے سے قبل ہونےوالے مظاہروں میںآسام میں پیش پیش تھیں اور ان مظاہروں سے ابھرنے والے لیڈروں کے ذریعہ بنائی گئی سیاسی پارٹیوں رائے جور دل اور آسام جاتیہ پریشد نے اس سلسلے میں غوروخوض کیلئے میٹنگوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ وہ اس بات پر غور کررہی ہیں کہ کس طرح ایک بار پھر سی اے اے کے خلاف مہم کو مہمیز دی جاسکتی ہے۔ ان تنظیموں کے لیڈروں کے مطابق سی اے اے کے خلاف تحریک کورونا کی وبا پھوٹ پڑنےکی وجہ سے کمزور پڑی تھی مگر زرعی قوانین کی منسوخی نے ایک نیا حوصلہ دیا ہے۔
اب مرکز کو سی اے اے کو بھی منسوخ کرنا ہوگا
آسو کے چیف ایڈوائزر سموجل کمار بھٹا چاریہ زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کافیصلہ اس لئے کرنا پڑا کہ یہ ’’عوام کے ساتھ مودی حکومت کی ناانصافی تھی۔‘‘ بھٹاچاریہ جو نارتھ ایسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (نیسو) کے بھی ایڈوائزر ہیں، کے مطابق’’اب مرکز کو سی اے اے کو منسوخ کرنا ہوگا کیوں یہ شمال مشرق کے اصل باشندوں کے خلاف ہے۔آسو اور نیسو سی اے اے کی اپنی مخالفت پر اٹل ہیں۔ یہ اس خطے کے عوام کی شناخت سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔‘‘
۳۰؍تنظیمیں تحریک کے احیاء کیلئے تیار
انہوں نے بتایا کہ آسو نے نیسو اور دیگر ۳۰؍ تنظیموں کے ساتھ اس سلسلے میں بات چیت کا سلسلہ شروع کردیا ہےکہ سی اے اے کے خلاف مہم کو کس طرح نئی حکمت عملی کے ساتھ آگے لے جایا جاسکتاہے۔ان کے مطابق’’یہ مہم کبھی ختم ہی نہیں ہوئی۔ ہم اپنی مزاحمت مختلف سطحوں پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کورونا کی وبا، لاک ڈاؤن اور امتحانات کی وجہ سے تحریک کی شدت میں کچھ کمی آئی ہے مگر اب ہم اسے تقویت دینے کے طریقہ کار پر غور کررہے ہیں۔‘‘ کرشک مکتی سنگرام سمیتی کے جوائنٹ سیکریٹری نے اس سلسلے میں سب کے متحد ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’سی اے اے کے خلاف سب کو متحد ہوجانا چاہئے، تبھی ہم اس کی منسوخی کو یقینی بنا سکتےہیں۔
سی اے اے مخالف آندولن کیلئے ۲۷؍ نومبر کو میٹنگ
آسام میں سی اے اے مخالف تحریک نئے سرے سے شروع کرنے کے امکانات پر ۲۷؍ نومبر کو تنظیم کی میٹنگ میں غور کیا جائےگا۔اس میں ضلعی اور مرکزی سطح کے تمام لیڈر شریک ہوں گے۔‘‘ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرہ سے ’رائے جور دل ‘کی شکل میں معرض وجود میں آنے والی سیاسی پارٹی بھی نئے سرے سے احتجاج شروع کرنے پر غور کررہی ہے۔ پارٹی کے کارگزار صدر بھاسکو ڈی سائیکیا کےمطابق’’زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کے مرکز کے فیصلے کے بعد آسام کے عوام یہ سوچنے لگے ہیں کہ سی اے اے مخالف تحریک کو کیوں جاری نہیں رکھا گیا۔وہ اس کے احیاء کے خواہش مند ہیں۔‘‘
لکھنؤ میں مسلم خواتین نے بھی آواز بلند کی
اتر پردیش جہاں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی سی اے اے کو انتخابی موضوع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی تقریروں میں تحریک دوبارہ شروع کرنے کی بات کررہے ہیںوہاں لکھنؤ سے مسلم خواتین نے بھی آواز بلند کی ہے۔ سید عظمیٰ پروین، صدف جعفراو رزینب صدیقی سمیت لکھنؤ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف شاہین باغ طرز کے مظاہروں کی قیادت کرنے والی خواتین نے وزیراعظم مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ زرعی قوانین کی طرح شہریت ترمیمی ایکٹ کو بھی منسوخ کریں۔
سی اے اے کی بات کرنے والوں کو یوگی آدتیہ ناتھ کا انتباہ
اس دوران یوپی میں سی اے اے مخالف مظاہرین کے ساتھ انتہائی ظالمانہ طریقے سے نمٹنے والے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اویسی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ سی اے اے کے نام پر عوامی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش نہ کریں۔ انہوں نے اویسی کیلئے ’’چچاجان‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ ’’اگر تم نے جذبات بھڑکا کر یوپی کا ماحول خراب کیاتو حکومت اچھی طرح جانتی کہ کیسے نمٹنا ہے۔‘‘