EPAPER
Updated: November 10, 2021, 10:19 AM IST | Jilani Khan | Lucknow
سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج سے متعلق معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے یوگی حکومت کی شبیہ ایک بار پھر متاثر، عدالت عظمیٰ نے یوپی میں نافذ نئے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کوئی نیا قانون کسی پرانے معاملے میں کیسے نافذ ہوسکتا ہے؟ یوگی حکومت کے فیصلے سےمتاثر ہونے والےمظاہرین میں خوشی کی لہر، حکومت کو ۲۲؍نومبرکو آئندہ سماعت پر جواب کے ساتھ حاضر ہونے کا حکم
:شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور این آر سی کے خلاف یوپی میں ہوئے ریاست گیر احتجاج کے بعد جن مظاہرین کے خلاف ریکوری نوٹس جاری کئے گئے تھے، ا نہیں سپریم کورٹ نے راحت دی ہے جبکہ ریاستی حکومت کیلئے یہ ایک بڑا جھٹکا ہے۔عدالت عظمیٰ نے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے یہ صاف کہہ دیا کہ چونکہ صوبے میں اس تعلق سے ایک نیا قانون نافذہوچکا ہے، اسلئے پہلے جاری ریکوری نوٹس کالعدم مانا جائے گا۔ ساتھ ہی، عدالت نے معاملے کی اگلی سماعت کیلئے ۲۲؍نومبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔
سپریم کورٹ نے ان تمام ریکوری نوٹس کو کالعدم قرار دے دیا ہے جو یوگی حکومت نے سی اے اے اورا ین آر سی مخالف مظاہرین کو بھیجے تھے۔کورٹ کا کہنا ہے کہ اب ریاست میں اس تعلق سے ایک نیا قانون نافذ کیا جاچکا ہے، اسلئے یہ نوٹس کینسل مانے جانے چاہئیں۔جسٹس ڈی وائی چندر چڈ اور جسٹس اے ایس بوپنا پر مشتمل بنچ نے پیر کویہ حکم دیا ہے۔ عرضی گزاروں کے وکیل نےکورٹ سے یوپی حکومت کے حلف نامہ پر جوابالجواب داخل کرنے کیلئے مہلت مانگی تھی، جس پر فاضل ججوں نے کہا کہ ۲۲؍نومبر تک اپنے جواب کے ساتھ عدالت آئیں۔ادھر، ریاستی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ اس نے خصوصی ٹریبونل قائم کر دیئے ہیں ، جن میں نئے قانون کے مطابق کارروائی ہوگی مگر، جن شہریوں کو نوٹس بھیجے گئے تھے، ان کا کہنا ہے کہ نیا قانون پرانے معاملوں میں کیسے لاگو ہوسکتا ہے؟نیاقانون یوپی پبلک اور پرائیویٹ پراپرٹی ڈیمیج ریکوری ایکٹ۔۲۰۲۰ءمیں جود میں آیا تھا۔اس کے تحت پرائیویٹ اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے پر قصورواروں سے ایک لاکھ تک کا جرمانہ وصول کیا جاسکتا ہے، ساتھ ہی، انہیں جیل بھی ہوسکتی ہے۔
اس تعلق سےریٹائرڈ آئی جی ایس آر داراپوری سے جب ’انقلاب‘ نے بات چیت کی تو انہوں نے کہا کہ ان کا معاملہ سپریم کورٹ میں نہیں بلکہ ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں ہے مگر عدالت عظمیٰ کے اس حکم سے وہ بہت خوش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھ جیسے کئی ایسے لوگوں کو ریکوری کا نوٹس تھما دیا گیا تھا جو مظاہرے کے وقت جائے وقوع کے آس پاس بھی نہیں بلکہ گھروں میں نظر بند تھے۔ دارا پوری نے بتایا کہ یہ کارروائی غیرقانونی تھی کیونکہ اس تعلق سے پہلے سے ہی سپریم کورٹ کی ہدایتیں ہیں، جنہیں سراسر نظر انداز کیا گیا تھا۔ساتھ ہی، جس ریونیو محکمہ نے جس دفعہ کے تحت یہ نوٹس بھیجا تھا، وہ دفعہ تو اس محکمہ کے دائرے میں بھی نہیں آتی۔اسلئے، ہم نے عدالت میں چیلنج کیا ہے، جس پر آخری سماعت گزشتہ مارچ میں ہوئی تھی۔
وہیں،ضلع انتظامیہ اور پولیس کارروائی کی زد میں آئے انسانی حقوق کارکن اوررہائی منچ کے بانی ایڈوکیٹ محمد شعیب نے بھی ’انقلاب‘ کو بتایا کہ یوگی حکومت کی یہ کارروائی بلا جواز تھی، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی مگر، وہ ایک خاص نظریات کے حامی اور ایک مخصوص فرقہ کے خلاف رہے ہیں، اسلئے اس طرح کی کارروائی کیلئے افسران کو مجبور کیا۔ایڈوکیٹ شعیب نے مزید کہا کہ ان جیسے کئی لوگوں کو صرف ہراساں کرنے کیلئے یہ نوٹس بھیجا گیا تھا۔انہوں نے حکومت کے قائم کردہ ٹریبونل پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے مطابق، اس میںہائی کورٹ کے جج کا ہونا لازمی مگر ریاستی حکومت نے اے ڈی ایم کی سربراہی میں یہ ٹریبونل قائم کیا ہے۔
مظاہرے کا ایک اہم چہرہ رہیں صدف جعفر کو ریکوری نوٹس بھیجا گیا تھا۔ ان کے گھر پر نوٹس بھی چسپاں کیا گیا تھا۔علاوہ ازیں، لکھنؤ کے اہم چوراہوں پرسرکاری سطح پر لگائے گئے ہورڈنگ میں بھی ان کی تصویر تھی۔انہوں نے ٹیلیفون پر بات چیت کے دوران سپریم کورٹ کے اس حکم پر اظہار خوشی کرتے ہوئے کہا کہ یہ سچ اور ہندوستانی قانون و آئین کی جیت ہے۔ہم نے کچھ بھی غلط نہیں کیا تھااسلئے ہمارے خلاف اس طرح کی انتقامی کارروائی کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔صدف کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا جیسے ہم ’دیش دروہی ‘ہوں جبکہ ہم نے آئین میں دیئے گئے حقوق کے تحت ہی مظاہرے و احتجاج کئے تھے، جو آگے بھی حسب ضرورت کریں گے۔
غور طلب ہے کہ مودی حکومت کے ذریعہ لائے گئے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ملک بھر میں شہریوں سڑک پر اتر آئے تھے ۔اسی معاملے کے خلاف دہلی میں طالبات اور خواتین نے تاریخ ساز دھرنا دے کر شاہین باغ کو عالمی نقشہ پر لا کھڑا کیا تھا۔ اتر پردیش میں بھی اس معاملے میں زبردست احتجاج و مظاہرے ہوئے تھے اور لکھنؤ سمیت کئیجگہوں پر احتجاج ہوئے تھے۔