Inquilab Logo Happiest Places to Work

الہ آباد ہائی کورٹ نے این ایس اے کے تحت۶؍ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کو غیر قانونی قراردیا

Updated: November 30, 2021, 8:15 AM IST | mau

سی اے اے کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی تھی، ایک سال تک قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد عدالت کافیصلہ آیا، وکیل نے خیر مقدم کیا

Amir Shabbir, Shehryar, Abdul Wahab, Asif Chandan, Anas and Faizan.
عامر شبیر، شہریار، عبدالوہاب، آصف چندن، انس اور فیضان

شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کی پاداش میں یوگی سرکار  نے مئو میں جن ۶؍ نوجوانوں کو  این ایس اے کے تحت گرفتار کرکےایک سال تک جیل میں رکھا،ان کی گرفتاری کو الہ آباد ہائی کورٹ نے قطعی  ’’غیر قانونی‘‘ قراردیا ہے۔ مذکورہ نوجوانوںعامر شبیر، شہریار، عبدالوہاب، آصف چندن، انس اور فیضان کو دسمبر ۲۰۱۹ء میں مئو کے دکشن ٹولہ علاقے میں احتجاج کرنے کی پاداش میں ستمبر ۲۰۲۰ء کوگرفتار کیاگیا تھا۔ 
 جمعہ کو فیصلہ سناتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے اس بنیاد پر مذکورہ نوجوانوں کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا کہ  انہیں گرفتاری کی وجہ جاننے کے بنیادی حق سے محروم رکھا گیا  جو نیشنل سیکوریٹی ایکٹ (این ایس اے ) کے آرٹیکل ۲۲(۵) کے تحت ضروری ہے۔اسی طرح کورٹ نے یہ نشاندہی کی کہ ملزمین کو ریاستی حکومت  نے اپنے دفاع کا خاطر خواہ موقع بھی نہیں دیا۔ ان نوجوانوں کو ایک سال قیدکی مدت مکمل ہونے کے بعد ۲؍ ستمبر ۲۰۲۱ء کورہا کردیاگیاتھا۔ الہ آباد ہائی کورٹ سے ان کی گرفتاری کو ہی غیر قانونی قرار دیئے جانے کے بعد یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیاسال بھر کی غیر قانونی حراست کیلئے ریاستی حکومت ہرجانہ ادا کریگی؟ان کے وکیل نذر الاسلام جعفری کا کہنا ہے کہ عدالت کی جانب سے ملنے والی یہ کلین چٹ ان نوجوانوں کیلئے اہم ہے کیوں کہ مستقبل میں ایک سال کی اس قید کو ان کے کردار پر دھبے کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکےگا۔ 
 جسٹس سدھارانی اور جسٹس سنیتا اگروال کی بنچ نےکہا کہ گرفتار کرنے والی اتھاریٹی یہ بھی بتانے سے قاصر ہے کہ ریاستی حکومت تک اس معاملے کی نمائندگی میں تاخیر کیوں ہوئی۔ کورٹ نے حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا کہ اس ضمن میں  اس کی جانب سے پیش کیاگیا عذر ناکافی ہے۔ کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ضلع مجسٹریٹ نے ماخوذ کئے گئے افراد کی گرفتاری کا جو حکم دیا وہ نہ طے شدہ اصولوں  کے مطابق تھا نہ ہی اس حکم کو جاری کرتے ہوئے  دماغ کا آزادانہ طورپر استعمال کیاگیا۔ کورٹ نے اس بات کی بھی نشاندہی کہ پولیس نے جو معلومات فراہم کی اس کی آزادانہ جانچ  ہی نہیں کی گئی اس لئے یہ پورا عمل ہی غیر قانونی ہوجاتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK