EPAPER
Updated: January 11, 2022, 9:40 AM IST | new Delhi
سابق جج کی قیادت میں جانچ کمیٹی تشکیل دینے کافیصلہ، این آئی اے سربراہ، پنجاب پولیس کے ڈائریکٹر جنرل اور ریاستی ہائی کورٹ کے رجسٹرار کمیٹی میں شامل ہوںگے
: وزیراعظم نریندر مودی کی سیکوریٹی میں جانچ کیلئے سپریم کورٹ نے پیر کو سابق جج کی قیادت میں ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کے ساتھ ہی عدالت نے مودی سرکار کی سخت سرزنش کی کہ اس نے سابقہ شنوائی میں منع کرنے کے باوجود افسران کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا۔ عدالت نے مرکز اور ریاستی حکومت کے ذریعہ بنائی گئی انکوائری کمیٹیوں کی جانچ پر بھی فوری طور پر روک لگادی ہے۔
جانچ کی ذمہ داری سپریم کورٹ نے خود لی
سینئر ایڈوکیٹ منندر سنگھ کی پٹیشن پر شنوائی کے دوران سپریم کورٹ نے پیر کو فیصلہ کیا کہ ۵؍ جنوری کو وزیراعظم کے فیروز پور دورہ کے وقت ان کی سیکوریٹی میں کوتاہی کی جانچ وہ خود آزاد کمیٹی سے کروائے گا جس کی قیادت سپریم کورٹ کے سابق جج کریں گے۔ عدالت نے مرکز اور پنجاب سرکار کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے کی انکوائری کیلئے بنائی گئی اپنی اپنی کمیٹیوں کی جانچ روک دیں۔ چیف جسٹس این وی رامنا،جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہیماکوہلی کی بنچ نے اشارہ دیا کہ جانچ کمیٹی میں این آئی اے کے آئی جی، چندی گڑھ کے ڈی جی پی ،پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل اور پنجاب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ( برائےسیکوریٹی)کو بھی شامل کیا جائےگا۔
مودی سرکار پر برہمی کااظہار
شنوائی کے دوران سپریم کورٹ نے مودی حکومت پر برہمی کااظہار کیاکیوں کہ سابقہ شنوائی میں جانچ پر روک لگانے کے حکم کے باوجود مرکز نے نہ صرف جانچ جاری رکھی بلکہ کئی افسران کو وجہ بتاؤ نوٹس بھی جاری کردیا ہے۔ مرکز کی پیروی عدالت میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا کررہے تھے۔ ان سے کورٹ نے پوچھا کہ جب مرکز نے پہلی نظر میں افسران کو وزیراعظم کی سیکوریٹی میں کوتاہی کا ذمہ دار تصور کرتے ہوئے وجہ بتاؤ نوٹس جاری کر دیا ہے تو اب اس معاملے پر سپریم کورٹ میں شنوائی کا کیا مقصد باقی رہ جاتاہے؟ اس دوران سالیسٹر جنرل نے مشورہ دیا کہ مرکزی کمیٹی جانچ کرکے کورٹ میں رپورٹ پیش کردیگی مگر پنجاب کی پیروی کرتے ہوئے وہاں کے ایڈوکیٹ جنرل ڈی ایس پٹوالیہ نے اس کی مخالفت کی۔ا نہوں نے مرکزکے ذریعہ کسی بھی طرح کی جانچ پر عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے عدالت کی نگرانی میں جانچ کی تائید کی۔ انہوں نے ہی کورٹ کو بتایا کہ مرکزی حکومت نے پنجاب کے چیف سیکریٹری اور ڈائریکٹر جنرل آف پولیس سمیت ۷؍ افسران کو وجہ بتاؤنوٹس جاری کرکے ۲۴؍ گھنٹوں میں جواب مانگا ہے۔ انہوں اس معاملے میں ’’کچھ سیاست‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر مرکز جانچ کرواتا ہے تو وہ غیر جانبدار نہیں ہوگی۔
سالیسٹر جنرل کو سپریم کورٹ کی ڈانٹ سننی پڑی
شنوائی کے دوران مودی سرکار کی پیروی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل نے اس معاملے پر سپریم کورٹ میں شنوائی کی ہی مخالفت کی۔ ان کی دلیل تھی کہ چونکہ اس معاملے میں ایس پی جی ایکٹ اور اس کی بلیو بُک کے اصولوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے اس لئے طویل شنوائی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ حقیقت کہ ریاستی حکومت اپنا دفاع کررہی ہے، بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے۔‘‘ اس دوران چیف جسٹس نے انہیں ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا تاثرنہ دیں کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر سنجیدہ نہیں ہے۔
مرکز کی کارروائی میں ہی تضاد؟
جسٹس سوریہ کانت نےسالیسٹر جنرل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کے وجہ بتاؤ نوٹس اپنے آپ میں تضاد ہیں۔آپ نے جانچ کیلئے کمیٹی قائم کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جاننا چاہتے ہیں کہ سیکوریٹی میں لاپروائی ہوئی ہے یا نہیں مگر آپ چیف سیکٹری اور ڈی جی کو(نوٹس جاری کرکے)خاطی بھی قرار دے رہے ہیں۔ ‘‘ جسٹس ہیما کوہلی نے کہا کہ ’’انہیں صرف ۲۴؍ گھنٹوں کا وقت دیاگیا ہے، ایسی توقع آپ سے نہیں تھی۔‘‘