EPAPER
Updated: January 28, 2022, 8:46 AM IST | Mumbai
جیل‘‘ سے زیادہ ’’بیل‘‘ (ضمانت) کے فلسفہ ٔ عدل کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے دوشنبہ کو کہا کہ کسی ملزم کو غیر معینہ مدت کیلئے قید نہیں رکھا جاسکتا۔
’’جیل‘‘ سے زیادہ ’’بیل‘‘ (ضمانت) کے فلسفہ ٔ عدل کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے دوشنبہ کو کہا کہ کسی ملزم کو غیر معینہ مدت کیلئے قید نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ بات جسٹس ڈی وائی چندر چڈ اور جسٹس دنیش مہیشوری پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ نے مویشیوں کی بین سرحدی اسمگلنگ کیس کے کلیدی ملزم انعام الحق کی ضمانت قبول کرتے ہوئے کہی۔ اس کیس کی تفصیل اور مضمرات سے ہماری واقفیت خاطرخواہ نہیں ہے مگر ہمیں کلیدی ملزم کے وکیل مکل روہتگی، جو ملک کے مشہور اور سینئر وکیل ہیں، کی اس جرح سے ضرور دلچسپی ہے جس میں انہوں نے عدالت کو بتایا کہ کلیدی ملزم اور دیگر ملزمین کے خلاف پہلی فرد جرم ۶؍ فروری ۲۰۲۱ء کو اور ضمنی فرد جرم ۲۱؍ فروری کو دائر کی گئی تھی۔ دیگر ملزمین کو کلکتہ ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا مگر انعام الحق کی ضمانت نامنظور کردی گئی تھی جبکہ اس کیس میں زیادہ سے زیادہ سات سال کی سزا تجویز کی گئی ہے اور انعام الحق ایک سال جیل میں گزار چکا تھا۔ ہائی کورٹ میں اس ملزم کی ضمانت کی مخالفت سی بی آئی کی جانب سے ایڈیشنل سولیسیٹر جنرل امن لیکھی نے کی تھی جس کے اپنے دلائل تھے۔ سپریم کورٹ میں درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران مذکورہ بنچ نے کہا کہ ’’ غیر معینہ مدت کی تفتیش سمجھ میں نہیں آتی، کیا کسی وسیع تر سازش کا پردہ تب ہی فاش ہوگا جب ملزم یا ملزمین غیر معینہ مدت کیلئے قید میں رہیں؟ کیا وسیع تر سازش کاپتہ لگانے کیلئے ایک سال اور دو مہینے ناکافی ہیں؟‘‘
اس پس منظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عدالت کا مذکورہ مشاہدہ صرف ایک کیس کی بنیاد پر ضرور ظاہر ہوا ہے مگر اس کا اطلاق دیگر کیسیز پر بھی ہو سکتا ہے جو تفتیشی ایجنسیوں کی طرف سے کیسیز کے معرض التوا میں رکھنے کے عمومی رجحان کی بنیاد پر ہے۔ اس کی وجہ سے عدالت کو سماعت ملتوی کرنی پڑتی ہے اور کیسیز کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔اس رجحان کیلئے صرف تفتیشی ایجنسیوں بشمول پولیس ہی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ وہ وکلاء بھی کسی نہ کسی سطح پر قصوروار ہیں جو سماعت کی تاریخ پر حاضر نہیں رہ پاتے اور سماعت کا ملتوی کیا جانا مجبوری بن جاتا ہے۔ اس سے مؤکلوں کا تو نقصان ہوتا ہی ہے، عدالتوں کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔ اس صورت حال کو اعدادوشمار کے ذریعہ سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں مقدمات کے زیر سماعت رہنے کا اوسط دورانیہ ۱۱۲۸؍ دن (تین سال ایک ماہ یعنی ۳۷؍ ماہ) ہے۔ یہ اعداد ملک کے ۲۱؍ ہائی کورٹس کے ڈیٹا سے ماخوذ ہیں۔ نچلی عدالتوں (سبارڈینیٹ کورٹس) میں یہ دورانیہ اور بھی زیادہ (۲۱۸۴؍ دن، کم وبیش ۶؍ سال) ہے۔ یہ اعداد ملک کے ممتاز تحقیقی ادارے ’’دَکش‘‘ کے حوالے سے انڈیا ٹوڈے میں شائع ہونے والی رپورٹ بعنوان ’’حصول انصاف کا طویل اور خرچیلا راستہ‘‘ سے مستعار ہیں جن سے انصاف کیلئے طویل انتظار کرنے اور ’’تاریخ پر تاریخ‘‘ کے کرب سے گزرنے والوں کی داستان ِ الم کی توثیق ہوتی ہے۔ معرض التواء میں پڑے ہوئے مقدمات کے جلد فیصل کئے جانے کیلئے ہی تیز رفتار عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا مگر یہ عدالتیں چونکہ مخصوص مقدمات کیلئے ہوتی ہیں اس لئے دیگر تمام مقدمات عام عدالتوں ہی میں جاری رہتے ہیں۔ جن مقدمات کی شہرت ہوجاتی ہے اُن کی جلد سماعت تو ممکن ہوبھی جاتی ہے مگر یہ معمول نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ حصول انصاف کی ڈگر کٹھن بھی ہے اور بہت گھوم کر منزل تک جاتی ہے۔ عدلیہ کو اس کی فکر ہے مگر مسئلہ کا حل دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ۔