Inquilab Logo Happiest Places to Work

گپ کار اتحاد کی میٹنگ ،آئینی پوزیشن کی بحالی کیلئے جدوجہد جاری رکھنے کاعزم

Updated: August 25, 2021, 8:18 AM IST | srinagar

پی اے جی ڈی کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی کا میڈیا سے خطاب، کہا: مودی حکومت جموں کشمیر کے لوگوں کی بے عزتی کو اپنی شان سمجھتی ہے جبکہ ہم ریاست میں آئینی پوزیشن کی بحالی چاہتے ہیں، سر اٹھا کر جینا چاہتے ہیں اور بے عزتی کی زندگی سے نجات چاہتے ہیں۔ گروپ میں شامل تمام ۶؍ جماعتوں کے نمائندوں کی شرکت، پورے ملک تک اپنی بات پہنچانے کا اعلان کیا گیا

Muhammad Yousuf Tarigami addressing the media while Farooq Abdullah can also be seen near him (Photo: PTI)
میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے محمد یوسف تاریگامی جبکہ ان کے قریب فاروق عبداللہ بھی دیکھے جاسکتے ہیں (تصویر: پی ٹی آئی)

 پیپلز الائنس فار گپ کار ڈکلریشن (پی اے جی ڈی) کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی نے مرکز کی مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ موجودہ مرکزی سرکار جموں کشمیر کے لوگوں کی بے عزتی کو اپنی شان سمجھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ آئینی حق کی بحالی کے مطالبے کی حمایت کرنے والے لیڈروں کو قوم دشمنی کا نقاب پہنایا جا رہا ہے لیکن ہم اس حق کی بحالی کیلئے جہد وجہد جاری رکھیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ جموں کشمیر میں طاری خاموشی کو’ نارملسی‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے لیکن موجودہ سرکار کی یہ پالیسی ہمیں کسی بھی صورت منظور نہیں ہے۔ انہوںنے ان باتوں کا اظہار منگل کو یہاں پی اے جی ڈی کی میٹنگ کے بعد میڈیا سے خطاب کے دوران کیا۔
 یہ میٹنگ،جو نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی گپ کار رہائش گاہ پر منعقد ہوئی، میں پی اے جی ڈی سے وابستہ سبھی جماعتوں کے درجنوں لیڈران نے شرکت کی۔ میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے تاریگامی نے کہا کہ’’ہمارا مطالبہ کچھ اور نہیں بلکہ وہی بات آج بھی ہے کہ جو۵؍ اگست۲۰۱۹ء کو ہماری آئینی حیثیت ختم کی گئی، ہم اس کی بحالی چاہتے ہیں اور یہ ہمارا آئینی حق ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ’’اس مطالبے کی حمایت کرنے والی شخصیات اور لیڈروں کو قوم دشمنی کا نقاب پہنایا جا رہا ہے، ان کو تنگ کیا جا رہا ہے اور ان کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے، آج تک اس طرح لوگوں کی آواز کو کبھی نہیں دبایا گیا۔‘‘
 محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ’’موجودہ سرکار نے تہیہ کر رکھا ہے کہ جموں کشمیر کے لوگوں کو بے عزت کیا جائے، ہماری بےعزتی کو وہ اپنی شان سمجھتے ہیں جس کو پی اے جی ڈی کسی بھی صورت میں منظور نہیں کرے گی۔‘‘ انہوں نےکہا کہ پی اے جی ڈی کا وجود ۴؍ اگست۲۰۱۹ءکو اس وقت عمل میں لایا گیا تھا جب ہماری آئینی پوزیشن کی تنسیخ کی کوشش ہوئی تھی۔انہوں نے کہا کہ ’’ہم اپنا حق مانگتے ہیں، ریاست کی آئینی پوزیشن کی بحالی چاہتے ہیں، ہم سر اٹھا کر جینا چاہتے ہیں اور بے عزتی کی زندگی نہیں گزارنا چاہتے ہیں۔‘‘
 گپ گار اتحاد کے ترجمان نے کہا کہ میٹنگ میں جو قرار داد ہم نے منظور کی، اس میں بھی آئینی پوزیشن کی بحالی کیلئے جدوجہد جاری رکھنے کا عزم دہرایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج ہم ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوئے ہیں، ہم الگ الگ اکائیاں ضرور ہیں لیکن اپنا سفر پر متحد ہو کر جاری رکھنے کیلئے اپنے وعد ے پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اراضی کے متعلق قوانین بنائے جا رہے ہیں، ڈومیسائل قوانین بنائے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حکومت کے یہاں سرمایہ کاری کرنے اور ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے دعوے جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جموں میں بھی تجارت کا حال برا ہے۔
  میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے تاریگامی نے کہا کہ ’’جموں میں اگرچہ کچھ حلقے پہلے ایسا سمجھتے تھے کہ کشمیر کے لیڈران ان کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے ہیں لیکن اب انہیں اپنی غلط فہمیوں کااحساس ہونے لگا ہے کیونکہ آج وہاں بھی تجارت کا حال برا ہے۔‘‘ ہماری ہی طرح  ان کے اراضی کے حقوق بھی غیر محفوظ ہیں۔ انہوںنے کہا کہ ایک مہم چلائی جا رہی ہے جس کے ذریعے یہاں کی سیاسی قیادت کو مسخ کیا جا رہا ہے جیسے کہ یہاں چوروں کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’یہ حالات ہمیں منظور نہیں ہیں، ہم یہ مقدمہ ملک کے لوگوں، سول سوسائٹی، صحافیوں کے سامنے رکھیں گے کہ جموںکشمیر کے لوگوں کو بے عزت کرنے کی کوششوں  کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ یہ حالات ملک اور جموں کشمیر کیلئے ضرر رساں ثابت ہوں گے۔‘‘انہوں نے کہا کہ’’یہاں  پر ہماری آواز کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ آج بھی انتظامیہ کی طرف سے اس میٹنگ کیلئے رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں اور ہمارے تعلق سے غلط افواہیں پھیلائی گئیں۔مطلب یہ کہ ہماری یہ چھوٹی سی میٹنگ بھی انتظامیہ کو برداشت نہیں ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے ساتھ میٹنگ کے بعد بھی ریاست میں اعتماد سازی کے اقدامات نہیں کئے گئے، جس پر افسوس ہے۔
 پی اے جی ڈی سربراہ فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ پر منعقدہ اس اجلاس  میںمحبوبہ مفتی سمیت اس گروپ میں شامل تمام ۶؍ پارٹیوں کے نمائندے موجود تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK