EPAPER
Updated: November 16, 2021, 10:03 AM IST | Tokyo
) دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی بمباری کے سبب برباد ہوجانے والے ملک جاپان نے گزشتہ ۷۶؍ سال میں اپنی پوری توجہ اور توانائی صرف ٹیکنالوجی اور معیشت کے محاذ پر لگارکھی تھی لیکن اب ایک بار پھر اس نے دفاعی شعبے میں اپنی طاقت بڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی بمباری کے سبب برباد ہوجانے والے ملک جاپان نے گزشتہ ۷۶؍ سال میں اپنی پوری توجہ اور توانائی صرف ٹیکنالوجی اور معیشت کے محاذ پر لگارکھی تھی لیکن اب ایک بار پھر اس نے دفاعی شعبے میں اپنی طاقت بڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ کوئی ۷۶؍ سال بعد یعنی دوسری جنگ عظیم کے بعد کے زمانے میں پہلی بار جاپان نے اپنا بحری بیڑہ پانی میں اتارا ہے۔
اطلاع کے مطابق یو ایس میرین کور‘ اور جاپان کی میری ٹائم سیلف ڈیفنس فورس نے جاپان کے طیارہ بردار بحری جہاز کے پروگرام کے دوبارہ آغاز کے طور پرایک خصوصی سفر کیا ہے جسے ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے ۔امریکی میگزین پاپولر میکانکس کے مطابق جاپانی طیارہ بردار بحری جہاز’ ایزومو‘ اور ’یوایس ایف ۳ایف بی‘ جنگجو طیاروں نے ایک پرواز میں حصہ لیا جو کہ ۱۹۴۵ء کے بعد سے پہلی جاپانی طیارہ بردار بحری بیڑے کا حصہ ہیں۔ واضح رہے کہ ۱۹۴۵ء سے قبل جاپان پہلی سرکردہ بحری ہوا بازی کی طاقتوں میں سے ایک تھا لیکن اسے دوسری جنگ عظیم میں شرکت کے دوران اپنے تقریباً پورے جنگی بیڑے، خاص طور پر طیارہ بردار جہازوں کی تباہی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دنیا کا پہلا طیارہ بردار بحری جہاز
دسمبر ۱۹۴۱ءمیں جاپان نے دنیا کی سب سے بڑی اور بہترین تربیت یافتہ کیریئر فورس چلائی تھی کیونکہ اس نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے اپنے بحری بیڑے پر بہت زیادہ انحصار کیا اور بحری جہازوں سے جنگی طیاروں کو چلانے اور لانچ کرنے کے تصور پر بہت زیادہ توجہ دی۔اس کے علاوہ امپریل جاپانی بحریہ نے ۱۹۲۲ءمیں دنیا کا پہلا طیارہ بردار بحری جہاز ’ہوشو‘ بنایا تھا، جب کہ امریکہ سمیت دیگر ممالک نے ابتدائی طور پر طیارہ بردار بحری جہاز بنائے تھے۔ دوسری جنگ عظیم نے بڑے پیمانے پر فتوحات حاصل کی تھیں اور ایک کے بعد ایک طاقتوں کو مات دے رہا تھا۔ لیکن امریکہ نے ہیروشیما اور ناگا ساکی میں بمباری کرکے اس کی کمر توڑ کر رکھی دی تھی۔
چار سال بعد جاپان کے پاس کوئی طیارہ بردار بحری جہاز نہیں تھا کیونکہ جاپانی بحری بیڑے کی اکثریت اتحادی افواج کے ہاتھوں تباہ ہو چکی تھی یا ڈوب چکی تھی۔لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان کی نو جمہوری امن پسند حکومت نے طیارہ بردار بحری جہازوں کو جارحانہ جنگ کے آلات کے طور پر پابندی لگا دی۔ جاپان نے اپنی پوری توجہ ٹیکنالوجی کی دریافت اور اپنے یہاں ہنر مندی کو فروغ دینے پر لگا دی تھی۔ حتیٰ کہ جس پر جاپان کو تباہ کرنے کا الزام تھا اس سے بھی جاپان نے دوستی کر لی تھی۔ اب کئی معاملات میں امریکہ خود جاپان پر انحصار کرتا ہے لیکن جاپان دفاعی معاملات میں امریکہ پر انخصار کرتا ہے۔ گزشتہ ۲؍ دہائیوں میں امریکہ نے جتنے بھی جنگی منصوبے تیار کئے ان میں جاپان کسی نہ کسی طرح امریکہ کے ساتھ تھا۔ حتیٰ کہ حال ہی میں چین کے خلاف امریکہ نے جو محاذ کھولا ہے اس میں جاپان اس کے ساتھ ہے۔ امریکہ ، ہندوستان، آسٹریلیا اور جاپان نے ایک گروہ قائم کیا ہے جس کا نام ’کواڈ‘ رکھا گیا ہے۔
یہ گروہ بحیرہ جنوبی چین میں بیجنگ کی دفاعی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے تیار کیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے حال ہی میں بحری بیڑے کی تیاری اور اس کی نمائش یہ سب کچھ امریکہ ہی کی ایما پر چین کو مرعوب کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔ فی الحال چین کی جانب سے جاپان کے اس اقدام پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ واضح رہے کہ دوسری طرف شمالی کوریا بھی آئے دن کسی نہ کسی میزائل کا تجربہ کر رہا ہے جس کی ہر بار جاپان نے مذمت کی ہے۔ ایسی صورت میں یہ قیاس بھی لگائے جا رہے ہیں کہ جاپان کے بحری بیڑے کا مقصد شمالی کوریا کیلئے کوئی اشارہ ہو۔